ملک میں8 فروری کو ہونیوالے عام انتخابات کے تقریباً ایک ماہ بعد میاں شہبازشریف نے دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان کی سیاسی اور انتخابی روایات کے ماضی میں ہر انتخابات میں دھاندلی، نتائج میں تبدیلیوں، سرکار کی طاقت اور شکست کو فتح اور فتح کو شکست میں تبدیل کرنے کے الزامات سےآلودہ تھے بہرحال انہی انتخابات کے نتیجے میں72 سالہ شہباز شریف نے ملک کے24 ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
یہاں یاد دہانی کے لئے بتانا غیر ضروری نہیں کہ ملک میں آج تک کسی منتخب وزیراعظم نے آئینی اقتدار کی مدت مکمل نہیں کی اور یہ بھی کہ وزیراعظم شہباز شریف کے پہلے اقتدار کا عرصہ جو انہیں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جانے کی صورت میں حاصل ہوا تھا اس کا دورانیہ صرف سولہ ماہ تھا اور اب انہیں اقتدار میں آئے لگ بھگ دو ماہ ہوئے ہیں اس قلیل عرصے میں جہاں ایک طرف وزیراعظم غیر ملکی دوروں، بین الاقوامی کانفرنسوں معیشت کی بحالی کیلئے قرضوں کے حصول میں بھاگ دوڑ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں وہاں ان کی کابینہ کے وزراء بھی اپنی اپنی وزارتوں کےتقاضوں کی تکمیل کیلئے انتہائی مصروف ہیں یا کم ازکم دکھائی تو ایسا ہی دیتا ہے تاہم نتائج کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے؎
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی داخلی صورتحال اور معاشی ابتری خارجی صورتحال پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہے جہاں خود ملک کے اندر ہر شعبے اور ہر محاذ پر غیر یقینی صورتحال ہو قانون کی حکمرانی کا تاثر بھی مفقود نظر آتا ہو، دہشتگردی کے واقعات روز مرہ کے معمول ہوں بڑے کاروباری ادارے پاکستان سے اپنے کاروبار سمیت نقل مکانی کررہے ہوں وہاں کوئی باہر سے سرمایہ کاری کیوں کرے گا پھر سرمایہ کاری تو دور کی بات اب تو بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی بھاری سود پر قرضہ دینے کیلئے اس صورت میں آمادگی ظاہر کرتے ہیں جب ان کی تمام شرائط اور پابندیوں پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کی یقینی دہانی کرائی جائے۔
پھر داخلی سطح پر سیاسی حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں پارلیمنٹ ایک تماشہ بنی ہوئی ہے ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی کا ہر اجلاس پر محتاط اندازے کے مطابق تین سے چار کروڑ روپےکے اخراجات ہوتے ہیں جن میں ارکان کے ائر ٹکٹس سے لیکر ان کے روز کا بھتہ اور دیگر اخراجات بھی شامل ہیں اورنئی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے پہلے دن کی کارروائی سے لیکر گزشتہ ہفتے ختم ہونے والے اجلاس کے آخری دن کی کارروائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کم و بیش یہ اجلاس ہنگامہ آرائی، گھیرائو، الزامات، دھمکیوں، واک آئوٹ اور کورم کی نشاندہی پر ختم ہوا۔
اپوزیشن کا یہ طرز عمل ایوان تک ہی محدود نہیں بلکہ ایوان سے باہر بھی وقتاً فوقتاً ایس ہی صورتحال نظر آئی ہے اور یہ بھی لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ حیرت انگیز بات بھی ہے کہ صرف دو ماہ کی حکومت کیخلاف اسے ختم کرنے کے لئے اپوزیشن بھرپور مزاحمت اور سیاسی طاقت کا استعمال کررہی ہے۔
پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف اور دیگر چھ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے نام سے تحریک شروع کر رکھی ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی جمیعت علمائے اسلام پاکستان فضل الرحمان نے بھی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔
اگرچہ دونوں تحریکوں کا مقصد بظاہر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے درمیان باہمی اختلافات اور سیاسی بیان بازیوں نے ابھی تک انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہونے دیا۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان کئی ایک رابطے بھی ہوئے اور تحریک انصاف کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں بھی کی لیکن بوجوہ دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان نے اپنے پہلے خطاب میں نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے آواز بلند کی بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی اکثریت بنتی ہے تو اقتدار تحریک انصاف کے حوالے کر دیں۔
گزشتہ 15 سال میں تحریک انصاف کے حق میں دیا گیا یہ مولانا فضل الرحمان کا پہلا بیان ہے، اس حوالے سے جب مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہمارے مذاکرات شروع نہیں ہوئے لیکن ہمیں مذاکرات سے انکار بھی نہیں ہے۔ اس حوالے سے اڈیالہ جیل میں عمران خان نے بھی صحافیوں سے گفتگو میں بتایا تھا کہ انہوں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو مولانا فضل الرحمان سے بات کرنے کی اجازت دی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام کی تحریک ایک ساتھ ہو جائے گی۔ اگر جمیعت علمائے اسلام اور تحریک انصاف ہاتھ ملاتی ہیں اور دونوں کی الگ الگ جاری احتجاجی تحریک ایک ہو جاتی ہے تو یقینا یہ پاکستان میں ایک بڑی احتجاجی تحریک کا روپ دھار لے گی۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ جمیعت علماء اسلام اور تحریک انصاف ایک اسٹیج پر مشترکہ احتجاجی تحریک چلا رہے ہوں گے۔ اس سے قبل پرویز مشرف دور میں امریکہ مخالف احتجاج اور عدلیہ بحالی تحریک کے دوران مولانا فضل الرحمان اور عمران خان اسٹیج شیئر کر چکے ہیں۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت بھی بیرون ملک تھی اور پاکستان میں اپوزیشن کی قیادت مولانا فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد کے ہاتھ میں تھی اس لیے عمران خان کو ان کے ساتھ ملنا ہی مناسب لگا تھا۔ اور مولانا فضل الرحمان انتخابات میں حصہ لے کر پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گئے تو تحریک انصاف اور جمیعت علماء اسلام کے درمیان اختلافات شروع ہوئے۔ یہ اختلافات اس وقت زور پکڑ گئے جب 2011 میں تحریک انصاف ایک بھرپور سیاسی جماعت کے طور پر ابھری اور مولانا فضل الرحمان کو خیبر پختونخوا میں اپنی جگہ محدود ہوتی ہوئی نظر آئی۔
پہلے 2013 اور پھر 2018 میں تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں جو کامیابی حاصل کی اس سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو شدید دھچکا پہنچا اور مولانا فضل الرحمان 1988 کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی نہ پہنچ سکے۔ تحریک انصاف کی اسی کامیابی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کھل کر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی جماعت کے کارکنان بھی مولانا فضل الرحمان کے خلاف جلسوں میں نامناسب نعرے بازی کرتے رہے۔
اس لیے اگر مولانا فضل الرحمان نو اگست 2023 کو اقتدار سے نکلنے کے بعد نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہو سکتے ہیں تو اس وقت وہ مقتدر حلقوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے عمران خان کے ساتھ اتحادی بھی بن سکتے ہیں۔ ’اس لیے غالب امکان ہے کہ مستقبل قریب میں حکومت مخالف احتجاجی تحریکیں ایک ہو جائیں۔‘مولانا فضل الرحمان کو اس بات کا دکھ ہے کہ انتخابات میں جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ان کا حصہ دیا گیا ہے اور جمیعت علماء اسلام کو ان کے جائز حصے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اس لیے وہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور مقتدر حلقوں سے برابر نالاں ہیں۔ ’مولانا کا شکوہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ان کی جماعت اور ان کے اپنے صاحبزادے بھی شامل تھے اور یہ مشکل وقت تھا جب لوگوں نے حکمران اتحاد کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا اور پی ڈی ایم کے سربراہ بھی مولانا فضل الرحمان تھے۔
مشکل وقت میں ساتھ دینے کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ جس طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں حصہ ملا ہے انہیں بھی حصہ ملے گا لیکن صورتحال اس کے برعکس سامنے آئی۔ ان کے مطابق مقتدر حلقوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مایوس ہونے کے بعد ہی مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’تاہم دونوں جماعتوں کے گزشتہ ایک دہائی کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی اتحاد ہو سکے گا یہ سو فیصد ممکن نہیں ہے کیونکہ دونوں کے درمیان نفرت کی حد تک مخالفت رہی ہے۔