امن و امان صورت حال کے بعد صوبے میں صحت کی سہولیات کی فراہمی میں پیدا ہونیوالے مسائل بھی عوام کےلئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں نگران حکومت جس کی بنیادی مینڈیٹ صاف شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے نے اپنا اصل کام چھوڑ کر سابق حکومت کی مبینہ طور کرپشن اور بھرتیوں کے پیچھے لگ گئی ہے، مگر اس کی آڑ میں اپنے من پسنداور منظور نظر افسران کی تبادلوں اور تعیناتیوں میں مصروف نظر آرہی ہے، ہفتہ رفتہ کے دوران 43 من پسند اعلی افسران کے تبادلوں کے احکامات جاری کئے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، آئے روز کسی نہ کسی محکمے کے افسران کو تبدیل کیا جاتا ہے اور اس کے لئے یہی ایک بہانہ بنیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لگائے گئے ان افسران کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں ، لیکن دیکھا جائے تو کئی ماہ گذرنے کے باجود عوام کی مشکلات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
محکمہ صحت میں کئی اہم عہدوں پر تعینات افسران اور ملازمین کو غیر یقینی صورتحال سے دو چار کیا گیا ہے ۔صوبے کے بڑے ہسپتالوں کو فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، جس کی وجہ سے صحت انصاف کارڈ پر مفت علاج کی سہولت متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔محکمہ صحت نے محکمہ خزانہ کو 20 ارب روپے فوری طور پر جاری کرنے کیلئے مراسلہ بھیجاہے۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ فنڈرز جاری نہیں کئے گئے تو صوبے کے میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹس میں صحت انصاف کارڈ پر مفت علاج کی سہولت بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ رواں مالی سال ایم ٹی آئیز کےلئے رواں سال 46 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جس میں ابھی تک صرف 25 ارب روپے ریلیز کئے گئے ہیں۔
فنڈ کی کمی کے باعث صوبے کے سب سے بڑے اسپتال لیڈی ریڈنگ کو بھی مالی مسائل کا سامنا ہے۔ صوبے کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ میں پہلے بھی مریضوں کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب تو فنڈز کی کمی کی وجہ سے مشکلات میں اور اضافہ ہورہا ہے۔ ملازمین کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ہسپتال کے لئے 2.675ارب روپے کافنڈ منظور ہوا تھا جو ابھی تک نہیں ملا۔ سابق نگران وزیر صحت ڈاکٹر عابد جمیل نے بھی محکمے کو مالی مسائل درپیش ہونے کا اعتراف کیا تھا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ عوام کو حاصل مفت صحت سہولیات میں بھی خرابیاں نکال کر اسے بند کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جائےگا ۔ صحت کے ساتھ ساتھ صوبے میں اعلیٰ تعلیم بھی مشکلات کا سامنا ہے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی طرح پشاور یونیورسٹی کو مدر یونیورسٹی کہا جاتا ہے لیکن وہاں پر تعلیم کا سلسلہ گذشتہ ڈیڑہ ماہ سے بند کیا گیا تھا۔ اساتذہ اپنے چند بچوں کے لئے مفت تعلیم کے حصول اور مراعات اور سہولیات میں اضافے کےلئے 17000سے زیادہ طلباء و طالبات کا مستقبل داو پر لگادیا گیا۔
ٹیکس دینے والے بچوں کے والدین اپنے خون پسینے کی کمائی سے ہر سمسٹر کے لئے یونیورسٹی کو 50ہزار روپے سے زیادہ اداد کررہے ہین لیکن یونیورسٹی کے پانچ سو اساتذہ نے کلاس فور کو اپنے مفادات کی خاطر ساتھ ملاکر ان 17000سے زیادہ بچوں کا مستقبل ایک شخص وائس چانسلر اور چند اساتذہ کی ضد ، انا اور ہٹ دھرمی کی نذر کیا جارہا ہے اور گورنر حاجی غلام علی جو کہ چانسلر ہیں اور ہائیر ایجوکیشن کی نگران وزیر بھی خاموش بیٹھے تھے۔
کیونکہ ان کے بچے تو پشاور یونیورسٹی میں نہیں پڑھتے جنکا ماہانہ یا ہر سمسٹر کےلئے ہزاروں روپے دفیس دی جاتی ہو۔ بعض نگران وزراء کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ایسے پروٹوکول کا مطالبہ کررہے ہیں جیسےکہ وہ پانچ سال کےلئے وزیر بنے ہیں۔ جہاں نگران وزراء کے اختیارات سے تجاوز کی بات آتی ہے تو اس میں سب سے پہلے نگران وزیر اطلاعات نے کی جو اپنے ہی وزرات کے سیکرٹری (محکمہ اطلاعات) کے ساتھ انہی کی کرسی پر بیٹھنے پر الجھ گئے تھے اس کے فورا بعدوہ مختلف محکموں میں بھر تی کئے گئے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے پیچھے پڑ گئے ان کا موقف تھا کہ یہ مخصوص پارٹی کےلئے کام کررہے ہیں ان کو فارغ کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔
ان کا موقف تھا کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا منصوبہ اپنی افادیت اور مطابقت کھو چکا ہے۔ حالانکہ جب سے نگران حکومت آئی ہے تب سے اسی فلیٹ فارم سے یہ انفلوئنسرز نگران وزیر اعلی اور وزراء کے کاموں کی تشہیر کررہے ہیں۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو محض 25ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا تھا اور اس کے لئے باقاعدہ اشتہار دیا گیا لیکن نگران وزیر اطلاعات نے ان کے بارے میں باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور موقف اختیار کیا کہ اسی پلٹ فارم سے اپوزیشن کو گالیا دی جاتی ہےجس کے بارے میں پی ٹی آئی کے ذمہ داروں کا کہنا تھا کہ جب سے نگران حکومت آئی ہے وہ صرف پی ٹی آئی مخالف اقدامات اٹھا رہے اور انہی کے کاموں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ نگران نہیں بلکہ مخصوص پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے راہنماؤں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ عوامی منصوبوں کے بارے میں آگاہی کو آگے بڑھا رہے تھے ۔ نگران وزیر اطلاعات جونہی انفارمیشن کے انفلوئنسر کو فارغ کرنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے ڈی جی کے خالی عہدےکےلئے من پسند شخص کو لانے کےلئے زور لگا دیا جس پر انفارمیشن کے افسران سمیت صحافی تنظیمیں بھی حرکت میں آگئیں اور نگران وزیر کی اس من مانی کے سخت مزاحمت کرتے ہوئے ان کے تقریبات کی کوریج سے بائیکاٹ کردیا ہے اور اس کا سلسلہ صوبہ بھر تک پھیلایا جارہا ہے۔
ادھر ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا کے عوام بھی مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا کررہے ہیں مفت آٹا سکیم کے زریعے ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی شہریوں کی تذلیل کا سلسلہ جاری ہے رمضان المبار ک کے دوران اس ناقص حکمت عملی کےاسکیم سے جہاں کروڑوں روپے ضائع کئے گئے وہاں درجنوں مرد و خواتین کو موت کے منہ میں دھکیل دیا غربت کے مارے لوگوں کو بھکاریوں کی طرح قطاروں میں کھڑا کرکے انکی تذلیل کی گئی۔
نگران حکومت کے پاس تو اس طرح کےاسکیم کے دوران شہریوں کو باعزت طریقے سے اشیاء ضرورت دینے کا کوئی ویژن تھا ہی نہیں جس کی وجہ سے پختونخوا کے سب سے زیادہ مستحق محروم رہ گئے جبکہ آٹا ڈیلرز اور سرکاری محکموں کے لوگوں پر مفت آٹا غائب کرنے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔