• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

معاشی خوشحالی: سیاسی بے یقینی ختم ہونے پر ہی آئے گی

قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ وطن عزیز میں آنے والوں دنوں میں سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ نہ صرف یہ کہ موجودہ ابتر سیاسی صورتحال کی بہتری میں کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ اتحادی جماعتوں کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی مخالفت اب ذاتی محاذ آرائی کی شکل بلکہ اگر بعض واقعات کا حوالہ دیکر یہ کہا جائے کہ ’’نفرتوں‘‘ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے تو غلط نہ ہوگا پھر اس صورتحال میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ چنگاری کب شعلہ بن جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

اس صورتحال کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے دو صوبوں میں ہونے والے انتخابات کے ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس جسٹس عطا بندیال نے ایک موقعہ پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ ۔ موجودہ سیاسی صورتحال بہت خراب ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ انتخابات اسی وقت ہوسکتے ہیں جب حالات سازگار ہوں۔ حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا حکومت اور پی ٹی آئی انتخابات چاہتی ہے تو دونوں کو اس حوالے سے یقین دھانی کرانی ہوگی۔ 

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس صرف ایک دن ہونے کے بعد اگلے ماہ کی 10تاریخ تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیر کو ہونے والے اجلاس میں کم وبیش ایک سال بعد پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی تھی خیال کیا جارہا تھا کہ ایک سال تک پارلیمانی سیاست سے باہر رہنے والے پی ٹی آئی کے سینیٹرز اپنی قیادت کے غلط فیصلوں کے پچھتاوے کا ازالہ کرنے کیلئے ایوان میں سنجیدہ اور بردباری کا مظاہرہ کریں گے ہرچند کہ انہیں ایوان میں اپنے موقف کے اظہار کا پورا حق حاصل ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت میں ان کے ساتھ کوئی زیادتی یا ناانصافی ہوئی ہے تو اس کا اظہار، گلہ شکوہ یا احتجاج بھی کریں لیکن اس سارے ردعمل کا طریقہ اور انداز جمہوری اور شائستہ ہونا چاہئے۔ 

ویسے بھی ایوان بالا کے ارکان کو پارلیمنٹ کا ایک زیادہ باوقار اور معتبر رکن سمجھا جاتا ہے کم ازکم ماضی میں تو ایسا ہی تھا لیکن ایک سال بعد بھی پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز جن میں خواتین ارکان بھی شامل تھیں جس ہنگامہ آرائی، شور شرابے اور احتجاج کے دوران جن نعروں اور حکومتی قائدین کے بارے میں ریمارکس دیئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کے آئندہ کے عزائم اور ارادے کیا ہوسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کےا سپیکر راجہ پرویز اشرف جو اجلاس کی کی صدارت کر رہے تھے انہوں نے بار بار اپوزیشن کے سینیٹرز سے درخواست کی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں اور جو کہنا چاہتے ہیں ایوان حاضر ہے لیکن شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

اگر آپ حکومتی ارکان کی تقریر میں مداخلت نہ کریں اور خاموشی سے انہیں سنیں اور اپنی باری پر ردعمل کا اظہار کریں تو میں آپ کو یقین دھانی کراتا ہوں کہ آپ کو بھی ایوان میں ایسا ہی ماحول ملے گا۔ لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کے سینیٹرز ہنگامہ آرائی میں مصروف رہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جسے پارلیمانی کارروائی کیلئے غیرمعمولی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ایک دن کی کارروائی کے بعد ملتوی کرنا پڑا اور وہ کارروائی بھی صرف سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم اور جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد الرحمان کی تقاریر پر مشتمل تھی جبکہ پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے ایجنڈے پر موجود کارروائی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

گیارہ سیاسی جماعتوں کی حکومت کے بارے میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ان توقعات پر پوری نہیں اتر پارہی جو عوام نے ان سے وابستہ کی تھیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس حوالے سے عوام کے سوالوں کے جواب اور ان کے ردعمل کا سامنا صرف پاکستان مسلم لیگ(ن) کو ہے باقی جماعتیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی اور جے یو آئی بالخصوص اپنے حصے کی ’’منفعت بخش‘‘ وزارتیں اور دیگر مراعات کو اپنا سیاسی حق سمجھ کر حکومتی آسائیشوں کو انجوائے کر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کو درپیش مشکل ترین حالات میں بھی کئی ماہ گزرنے کے باوجود پی ڈی ایم کا اجلاس بھی نہیں بلایا گیا اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ چکی ہے تو اس کی تردید یا وضاحت بھی نہیں کی جاتی۔ 

موجودہ حکومت جسے مشکلات کا سامنا کرنے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا وزیراعظم میاں شہباز شریف کی سربراہی میں کام کرنے کے حوالے سے پاکستان کی ایک منفرد حکومت ہے جسے بیک وقت معاشی، سیاسی اور دہشتگردی کے بحرانوں کا سامنا ہے اور شاید ہی کسی حکومت کو بیک وقت یہ تینوں مسائل اتنی شدت کے ساتھ پیش آئے ہوں یہی وجہ ہے کہ حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کسی ایک ترجیح کا انتخاب کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں عمران خان کی جارحانہ جسے منفی سیاست کہنا زیادہ مناسب ہوگا اس نے ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا کر رکھا ہے جس سے بے یقینی کی فضا میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ صورتحال باالوسطہ اور بلاواسطہ ملک میں معاشی بحران کے اضافے کا سبب بن رہی کیونکہ پاکستان کو درپیش شدید معاشی بحران سے جو عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔

اس کے پیش نظر دوست ممالک بھی ماضی کے برعکس مالی تعاون کے حوالے سے ’’حق دوستی‘‘ ادا کرنے میں تذبذب سے کام لے رہے ہیں۔ پھر دہشتگردی کے واقعات بھی جاری ہیں اور ملک میں ہونے والی مہنگائی سے سٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اب ایک طرف تو آئی ایم ایف اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی شرائط تسلیم کرا رہا ہے اور حکومت کو وہ تمام اقدامات کرنے پر مجبور کر رہا ہے جس کے اثرات سے براہ راست عوام متاثر ہورہے ہیں اور حکومت غیر مقبول ہو رہی ہے اس کی حالیہ مثال پٹرول کی مصنوعات میں حکومت کی جانب سے سبسڈی کی شکل میں قیمتوں میں معمولی سی کمی کے فیصلے پر بھی آئی ایم ایف نے اعتراضات اٹھا دیئے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی جانب سےسبسڈیز کے ذریعے قیمتوں میں کمی کرنے کے اقدام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شرط سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ روپے کی قدر میں کمی بھی شامل ہے اس صورتحال میں تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے اخراجات میں بھی کمی کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اوسط ماہانہ تنخواہ سے بھی دوگنا کمانے والوں کیلئے بھی بچوں کی تعلیمی اخراجات پورا کرنا آسان نہیں رہا۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ایک بیل آؤٹ پیکج کے حصول کیلئے سبسڈیز ختم کرنے سے حکومتی اقدام سے پاکستان کی آبادی کے سب سے بڑے طبقے (کم آمدنی والے) کو اب شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ اب ایسی دشوار ترین صورتحال میں حکومت عوام کو کوئی ریلیف کس طرح آسانی سے فراہم کرسکتی ہے؟ پھر معیشت، امن وامان اور سیاسی امور ان میں حکومتی ترجیحات کا تعین بھی ایک مشکل مرحلہ ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ معاشی صورتحال کی بہتری سے ہی عوام کی زندگی میں آسانیاں آسکتی ہیں اور دہشتگردی سے سٹریٹ کرائم پر بھی اس صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورتحال ختم ہو تاکہ حکومت یکسوئی کے ساتھ معیشت کو اولین ترجیح قرار دے کر اس پر کام کر سکے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید