حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں بعض امور پر جزوی اتفاق، کچھ میں لچک کے اظہار اور کہیں بے نتیجہ ثابت ہونے کی خبریں اور گفتگو سامنے آرہی ہیں۔ اس لئے فی الوقت تو تیسرے دور کے حوالے سے مذاکراتی عمل کو مکمل طور پر کامیاب اور نہ ہی ناکام قرار دیا جاسکتا ہے گو کہ حکومتی نمائندے اسحاق ڈار بار بار زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ فریقین نے مثبت سوچ کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا ہے اور اگر یہ بات درست بھی ہے تو منفی نتیجے کی باتیں کہاں سے اور کیوں آرہی ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بجٹ پیش کرنے تک حکومت برقرار رکھنا چاہتی ہے، جبکہ تحریک انصاف 14 مئی تک حکومت کے خاتمے کی خواہشمند ہے اور اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر ایک ساتھ الیکشن کے لیے تیار ہیں۔
جمعے کو دوسرے دور کے اختتام پر مذاکراتی ٹیموں میں شامل ایک رکن نے بتایا تھا کہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف سے کہا گیا ہے کہ فوری اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ دینے کے مطالبے میں لچک دکھائے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کا موقف تھا کہ معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ نگران حکومت بجٹ پیش نہیں کر سکتی۔ اس لیے یہ بھی آئینی تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت کو بجٹ پیش کرنے دیا جائے۔اب ایک اور صورتحال جو بڑے خدشے کی صورت میں تحریک انصاف کی جانب سے متوقع ہے وہ یہ کہ الیکشن جب بھی ہوتے ہیں اور وہ خواہ کتنے ہی شفاف کیوں نہ ہوں اگر عمران خان کو دوتہائی اکثریت سے حکومت بنانے کی کامیابی نہیں ملتی تو کیا وہ ان نتائج کو تسلیم کریں گے؟
ان کے راہنما جو کافی عرصے سے پاکستان تحریک انصاف کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت قرار دیتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں 60فیصد سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہے کیا غیر متوقع طور پر خواہش کے برعکس اپنی ناکامی کو تسلیم کریں گے۔ عمران خان ابتدا سے ہی کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں دو تہائی اکثریت نہ ملی تو وہ حکومت نہیں بنائیں گے تو پھر اس صورت میں وہ ان نشستوں پر بھی اپنی ناکامی کیسے قبول کریں گے جن پر دوسری جماعتوں کا بڑا ووٹ ہے۔
لازمی ہے کہ وہ دھاندلی کا الزام بھی لگائیں گے۔ دوبارہ گنتی اور پھر ری الیکشن کا بھی مطالبہ کریں گے۔ پھر یہ سب کچھ قرین ازقیاس ہے بلکہ ان کے ماضی کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو یقینی بھی۔ شاید کم لوگوں کے علم میں ہو کہ ماضی میں بھی انتخابات کے نتائج نہ تسلیم کرنے پر ملک دولخت ہو گیاتھا۔ خاکم بدہن کہ ایسی صورتحال پھر کبھی پیش آئے لیکن وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا پھر جب 1977میں ملک میں عام انتخابات ہوئے جو ملک میں ہونے والے دوسرے انتخابات تھے تو اس کے نتیجے میں ایک ایسی تحریک چلی تھی جس کے باعث آئین معطل ہو گیا تھا اور پھر قوم کو طویل عرصے تک غیر سیاسی اور پھر نیم سیاسی حکومت دیکھنی پڑی۔ لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ آج جو کچھ عدلیہ میں ہو رہا ہے اور جو کچھ پارلیمنٹ میں دیکھا اور سنا جا رہا ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے دیکھنے میں تو کیا سننے میں بھی نہیں آیا اور بلاشبہ یہ پاکستان کی پارلیمانی اور عدلیہ کی تاریخ کا پہلا موقع ہے اب اگر خدانخواستہ اس صورتحال کے پیش نظر دوبارہ کوئی ایسی ہی صورت پیش آتی ہے تو یقیناً پھر اس کی ذمہ داری سب پر ہوگی اور کوئی بھی اس سے مبرا قرار نہیں دیا جائے گا۔
ملک کو اس وقت جن معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے پہلے حالات کبھی ایسے نہ تھے ایک طرف سیاسی تنائو اور دوسری طرف اقتصادی مشکلات درپیش ہیں۔ ان حالات میں احتجاجی سیاست اور سڑکوں پر اپنے مطالبات کےلیے نکلنا ملک کےلئے بہت خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک کو معاشی اور سیاسی مشکلات سے نکالنے کا واحد حل فریقین کی طرف سے لچک دکھانے اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو سلجھانے میں پوشیدہ ہے۔