ر۔ا۔ط
ملک میں سیاسی درجہ حرارت انِ دِنوں کافی بڑھا ہوا ہے۔ دوسری جانب مُقنّنہ اور عدلیہ کے درمیان تناو میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاست میں پیکا ایکٹ اور پنجاب اسمبلی میں حال ہی میں منظور ہونے والا ہتکِ عزّت کا قانون، جے یوآئی اور پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی قُربتیں، پنجاب میں نون لیگ اور پی پی پی کا ایک صفحے پر نظر نہ آنےکا تاثر اور پی ٹی آئی کے ترجمان روف حسن پر ہونے والا حملہ سر فہرست نظر آتے ہیں۔
مُقنّنہ اور عدلیہ کے درمیان تناو لاپتا افراد کے کیس سے شروع ہواتھا۔اس کے بعد سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک پریس کانفرنس کی جس پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس ملا۔ اس کے بعد سینیٹ کے اجلاس میں اس معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال کا ٹرننگ پوائنٹ آٹھ فروری کا الیکشن تھا۔
اس کے فوری بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے اپنے چیف جسٹس، عامر فاروق کو عدلیہ میں مداخلت سے متعلق خط لکھا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا۔ اس پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس لیا گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے رویے میں بھی بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ کا معاملہ بھی شہ سرخیوں میں ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اس میں ترامیم کے لیے 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔کمیٹی کے سربراہ وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، وفاقی وزرا خالد مقبول صدیقی، شزا فاطمہ، شیری رحمٰن، نواب زادہ خالد حسین مگسی، اٹارنی جنرل آف پاکستان، منصور عثمان انور کمیٹی کے اراکین میں شامل ہیں۔
کمیٹی مجوزہ ترامیم پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرے گی۔واضح رہے کہ 9مئی کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔پیکا ایکٹ 2024کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی منظوری بھی دی گئی تھی۔
اطلاعات تھیں کہ نیا تجویز شدہ پیکا بل 2024 کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ یادرہے کہ پیکا قانون ترمیمی بل کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کابینہ کی قانونی اصلاحات کمیٹی نے مجوزہ ترمیمی بل اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی تجویز دی تھی۔
مجوزہ پیکا ترمیمی بل 2024اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کی انچارج وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ہوگی۔اتھارٹی ڈیجیٹل حقوق سے متعلق معاملات پر حکومت کو تجاویز دے گی۔ ڈیجیٹل اتھارٹی انٹرنیٹ کے ذمے دارانہ استعمال اور ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنائے گی۔ اس کے علاوہ مثبت ڈیجیٹل ایکو سسٹم کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ تعاون میں سہولت فراہم کرے گی۔
بتایا گیا تھا کہ مجوزہ ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرے گی اوراتھارٹی سوشل میڈیا پر قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے گی۔ ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی نئے پیکا قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ ڈیجیٹیل رائٹس اتھارٹی ملوث افراد اور گواہوں کو طلب کر سکے گی۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل حقوق کے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے قواعد بھی بنا سکے گی۔ آن لائن دائرے میں صارف کی حفاظت کو فروغ دینے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ایک محفوظ اور قابل اعتماد ڈیجیٹل ماحول بنایا جائے گا۔
یہ قانون پہلے سے ہی متنازع رہا ہے۔فروری 2022میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس وقت کی حکومت کو پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا تھااوراس وقت کی حکومت کی اتحادی جماعت، ایم کیو ایم کے رکن پارلیمان اور وفاقی وزیر امین الحق نے عمران خان کو لکھے گئے خط کے ذریعے پیکا آرڈیننس فوری طورپر واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ حکم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی درخواست پر جاری کیا تھا۔
پی ایف یو جے نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) سے متعلق ترمیمی آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔اس قانون کی دفعہ 20 ہتک عزت کے تحت شکایت کے اندارج سے متعلق ہے۔ آرڈیننس جاری ہونے سے قبل یہ جرم قابل ضمانت تھا۔ تاہم آرڈیننس کے ذریعے اسے نہ صرف ناقابل ضمانت بنا دیا گیاتھا بلکہ اسے فوج داری قوانین کے زمرے میں داخل کرلیا گیا تھا جس کی سزا پانچ سال تک قید ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ان دنوں اس حوالے سے موجود قوانین میں نئی ترامیم متعارف کرائی گئی تھیں جنہیں اس وقت کےصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا جس کے بعد سے اس پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔
اسی نوعیت کا دوسرا معاملہ صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں حال ہی میں ہتک عزت کے نئےقانون کی منظوری کا ہے جس کے تحت حکومت ایسے خصوصی ٹریبونل بنا پائے گی جو چھ ماہ کے اندرایسے افراد کو سزا دیں گے جوفیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث ہوں گے۔
یہ سزا 30 لاکھ روپے تک ہرجانے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اور ہرجانے کی یہ سزا ٹریبونل ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکم نامے میں سنا سکتا ہے۔ ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں عبوری طور پر لی گئی ہرجانے کی رقم ہرجانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی۔ ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
ہتکِ عزت یا ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت ان ٹریبونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جن کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع جاری نہیں کر پائے گی۔ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے علاوہ صحافتی تنظیموں نے اس قانون کے منظور کیے جانے کے خلاف احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان میں آزادی اظہارِ رائے کے آئینی حق کے خلاف ہے اور اسے لوگوں کی آواز بند کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب اس معاملے پر نون لیگ اور پی پی پی ایک صفحے پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدرگیلانی نےکہا ہےکہ ہتک عزت بل سے متعلق پوچھا گیانہ بتایا گیا۔ پیپلزپارٹی کبھی اس بل کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ بل کا حصہ نہیں بنے، میڈیا کی آزادی کے لیے ساتھ کھڑے ہیں۔ علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ ہتک عزت بل کی منظوری کے روز اپنے ارکان کو غیر حاضر رہنےکا کہا تھا۔ بل کی منظوری کے روز پیپلزپارٹی کا کوئی رکن ایوان میں نہیں تھا۔
ادہر گورنر پنجاب، سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ ہتک عزت بل حرف آخر نہیں اس پر صحافتی تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہیے۔اسے مزید بہتر بنایاجائے۔ ہتک عزت بل پر ملک میں طوفان برپا ہے۔ بل پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہتک عزت قانون میں جلدی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ قانون مشاورت سے لایا جاتا تو اچھا ہوتا۔ امید ہے کہ بل کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ بل پڑھنے کے بعد اپنی قانونی ٹیم کو دوں گا وہ بھی اسے دیکھے گی۔ امکان ہے کہ میں پنجاب حکومت کو ہتک عزت بل پر نظرثانی کا کہوں گا۔امید ہے کہ اتفاق رائے ہوجائے گا۔
یوں محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کے لیےایک اور مشکل کھڑی ہونے جارہی ہے۔گزشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔
مشترکہ نکات پر پارلیمنٹ میں ہماری آواز ایک ہونی چاہیے اور ملک میں ایک خوش گوار سیاسی ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہہم اگر اختلافات ختم نہیں کر سکتے تو انھیں نرم کیا جا سکتا ہے۔ یوں دونوں جماعتوں نے مشترکہ نکات پر ساتھ چلنے کا واضح پیغام دیا ہےجس سے حکومت کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے ترجمان روف حسن پر گزشتہ دنوں ہونے والے حملے نے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھادیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے رؤف حسن پر حملے کی تحقیقات جوڈیشل کمیشن سے کرانے کا مطالبہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ اب کوئی حملہ ہوا تو پرامن ملک گیر احتجاج کریں گے۔ رؤف حسن کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے کہا کہ بلیڈ کا حملہ رؤف حسن کی شہہ رگ کاٹنے کے لیے کیا گیا اور چھری نما تیز دھار والے آلے سے ان کا چہرہ چیر ڈالاگیا۔
کوئی بڑا حادثہ ہونے جارہا تھا جس سے اللہ نے بچا لیا، رؤف حسن نے بڑی بہادری سے سب معاملے کو دیکھا۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے بانی نے کہا ہے کہ رؤف حسن کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا مطلب ہے کہ نظام ڈنڈے سے چلایا جا رہا ہے۔ پارٹی تیار رہے، رؤف حسن کے معاملے پر اب ہم سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔
اگر پی ٹی آئی احتجاج کے لیے نکلی اور جے یو آئی نے بھی اس کا ساتھ دیا توپہلے سے مشکلات میں گھری حکومت کے لیے مزید مشکلیں کھڑی ہوسکتی ہیں۔ لہذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام متنازع معاملات کو گفت و شنید سے حل کرنے کی فوری کوشش کی جائے۔