جب 2023 کا آغاز ہوا ملک میں میاں شہباز شریف کی حکومت اپنے آخری مرحلوں میں داخل ہورہی تھی۔ اس کو اقتدار میں آئے تقریباً آٹھ ماہ گزر چکے تھے اور مزید آٹھ ماہ گزرتے گزرتے اس نے اس ملک کے عوام کی مہنگائی کے ذریعے کمر توڑ کر رکھ دی۔ شہباز شریف کو آئی ایم ایف سے قرض بھی لینا پڑا اور اُن کی شرائط بھی ماننا پڑیں جن کے نتیجے میں 2023 کا سال پاکستان کے عوام کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا۔
توانائی کا بحران
2023 میں پاکستان کے لوگ ایک بار پھر توانائی کے شدید بحران کا شکار رہے۔ ایک طرف تو تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہیں اور دوسری طرف بجلی اور گیس دونوں کی لوڈشیڈنگ مسلسل جاری رہی۔ بڑے شہروں میں کئی کئی گھنٹے فراہمی معطل رہی جس کے نتیجے میں صنعتوں کے پہیے صحیح طور پر نہ چل سکے جس کا اثر برآمدات پر پڑا اور ملک کو درپیش معاشی بحران کی سنگینی میں کوئی کمی نہیں آئی گو کہ حکومت اعلان کرتی رہی کہ جلد صورتِ حال بہتر ہوسکتی ہے مگر یہ سب صرف وعدے ثابت ہوئے۔ جنوری 2023 میں اعلان کیا گیا کہ بازار اور دکانیں ساڑھے آٹھ بجے بند کردی جائیں گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔
23 جنوری پورا ملک اچانک بجلی سے محروم ہوگیا۔ قومی پاور گرد میں ہونے والی خرابی کے نتیجے میں تقریباً تمام شہروں اور قصبوں میں بجلی منقطع ہوگئی ۔ اس کے ساتھ ہی گزرتے برس توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا مسئلہ بدستور جاری رہا۔ گردشی قرضوں کا اصل منبع IPP یعنی بجلی کے نجی کار خانے ہیں جو حکومت سے اپنے واجبات وصول کرنا چاہتے ہیں۔
یہ واجبات زیادہ تر معاہدے کے مطابق مگر ناانصافی پر مبنی ہوتے ہیں کیوں کہ معاہدے کرتے وقت یہ نجی ادارے حکومت سے اپنی گنجائش کے مطابق معاوضے کے طالب ہوتے ہیں چاہے بجلی استعمال ہو یا نہ ہو اس طرح جب حکومت واجبات ادا نہیں کرپاتی تو اُن پر سود بھی چڑھتا رہا ہے جو گردشی قرضوں میں مسلسل اضافے کا باعث بنتا ہے اور ملک میں مہنگی بجلی کی فراہمی کا بھی کیوں کہ ان قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور 2023 میں بھی یہی ہوتا رہا۔
سیلاب زدگان کی مدد کے وعدے پورے نہ ہوسکے۔ جب 2023 کا آغاز ہوا تو سندھ اور بلوچستان کے درجنوں اضلاع گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے بری طرح متاثر تھے۔ ان اضلاع میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے تھے۔ اسکول، کالج، اسپتال، دواخانے دریا برد ہوچکے تھے اور حکومت صرف وعدوں سے کام چلا رہی تھی۔ جنوری 2023 میں حکومتِ پاکستان اور اقوام متحدہ نے مل کر ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس جنیوا سوئٹزرلینڈ میں منعقد کی، تاکہ سیلاب زدگان کے لیے بین الاقوامی مدد حاصل کی جاسکے۔
اس اجلاس میں اعلانات کیے گئے کہ پاکستان کے لیے بیرونی ممالک اور ادارے دس ارب ڈالر تک کی امداد پر رضامندی ظاہر کرچکے ہیں۔ بظاہر یہ کانفرنس خاصی کام یاب بتائی گئی مگر 2023 کے اختتام تک ان دس ارب ڈالر میں سے آدھی رقم بھی حکومتِ پاکستان کو موصول نہیں ہوئی اور جو رقوم آئیں بھی اُن میں شفافیت کا خیال نہیں رکھا گیا یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنی رقم وفاق نے اپنے پاس رکھی، کتنی صوبوں کواور کتنی اضلاع کو منتقل کی گئیں۔
اس مرکزی فیصلہ سازی اور ہر چیز کو اوپر سے قابو میں رکھنے کی کوششوں کے باعث سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہ ہوسکا اور نہ ہی روزگار کی بحالی اور گھروں کی تعمیر یا صحت و تعلیم کی سہولتوں کے لیے ٹھوس کام ہوئے۔ پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلی کا خاتمہ جنوری 2023 میں عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے ذریعے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کروا دیا۔ گو کہ ابھی اس اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے میں آٹھ ماہ باقی تھے۔
گزرا برس پاکستان اور اس کے عوام کے لئے بہت بُرا رہا، بے یقینی اور عدم استحکام نے ہر شعبۂ زندگی کو شدید متاثر کیا
اس کے پانچ دن بعد صوبے خیبر پختون خواہ میں بھی یہی کیا گیا اور عمران خان وہاں کے وزیراعلیٰ محمود خان کے ذریعے کے پی کے اسمبلی بھی تحلیل کروانے میں کام یاب ہوگئے، جب کہ اس اسمبلی کے تقریباً ساڑھے سات ماہ باقی تھے۔ دراصل 2023 کے شروع سے ہی عمران خان بڑے بے چین نظر آرہے تھے کہ کسی نہ کسی طرح حکومتِ وقت کو شدید پریشانی میں مبتلا کرکے جلد از جلد انتخابات کے لیے مجبور کر دیا جائے۔
عمران خان کی اس بے چینی میں تحریک انصاف کے دیگر رہ نما اور کارکن بھی شامل ہوتے چلے گئے اور اپنے غلط اندازوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا ۔وہ سمجھ رہے تھے کہ اُن کی طرف نرم گوشہ رکھنے والے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال حکومت کو مجبور کر دیں گے کہ وہ فوراً انتخابات کرائے لیکن عدلیہ بھی ایسا نہ کراسکی، کیوں کہ نئے آرمی چیف اور اُن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خود الیکشن کمیشن بھی اس طرح سے تحریک انصاف کی دھونس دھمکی سے مجبور ہو کر انتخابات کرانے پر تیار نہیں تھے، پھر مرکزی حکومت کو بھی اگست 2023 میں ختم ہونا تھا اس لیے 2023 کے اختتام پر انتخابات نہ ہوسکے۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات
2023 شروع ہوا تو اس وقت تک سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کر چکی تھی اور وہ مجبور تھی کہ ہر حالت میں انتخابی عمل کے دوسرے مرحلے کو مکمل کرکے بالآخر جنوری 2023 میں ہی کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے سولہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کرانے پڑے۔ لیکن اس کے بعد خاص طور پر کراچی میں نئے میئر کے انتخاب کو ٹالا جاتا رہا۔
پیپلز پارٹی سندھ کے ان انتخابات میں کام یاب ہوئی لیکن خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی خاصا شور مچایا کہ ان انتخابات میں دھاندلیاں کی گئی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی نظر میں یہ انتخابات صاف اور شفاف تھے۔ بالآخر پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا میئر منتخب کرلیا گیا جس پر حزبِ مخالف نے خاصی ناراضگی کا اظہار کیا اور اس انتخاب کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا۔ تاہم 2023 کے آخر تک مرتضیٰ وہاب اپنی نشست پر براجمان تھے۔
پنجاب اور کے پی کے میں نگراں حکومتیں
جب تحریک انصاف نے ان دو صوبوں میں خود اپنی ہی حکومتوں کو ختم کرکے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تو اس کا منطقی نتیجہ آئین کے مطابق نگراں حکومتوں کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ اکیس جنوری کو خیبر پختون خواہ میں محمد اعظم خان نے نگراں وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھایا اور اگلے روز پنجاب میں محسن رضا نقوی نے نگراں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ اعظم خان نوے برس کے تھے اور اُن کا تعلق افسر شاھی سے تھا۔ وہ خیبر پختون خواہ کے چیف سیکریٹری رہ چکے تھے۔
اُن کی رشتے داریاں مختلف سیاسی جماعتوں میں تھیں لیکن وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے بعد بھی نومبر 2023 تک نگراں وزیر اعلیٰ رہے اور پھران کا انتقال ہو گیا۔ اس سے قبل وہ 2018 میں نگراں وزیراعظم نصیر الملک کی حکومت میں وزیر داخلہ بھی رہ چکے تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی عمر پینتالیس سال ہے یعنی وہ اعظم خان کے مقابلے میں نوجوان تھے، انہوں نے پنجاب کو اچھی طرح سنبھالا اور اب وہ اپنی نگرانی کا ایک سال مکمل کرنے والے ہیں غالباً وہ پنجاب کے طویل ترین مدت تک نگراں وزیر اعلیٰ ہوں گے۔
تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک
تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی خود حکومت ختم کرنے کے بعد جب ناکامی کا سامنا کیا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کیا جائے۔ ایک عجیب سی بدحواسی میں اس نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا اور سمجھنے لگی کہ اب شہباز شریف حکومت انتخاب کرانے پر مجبور ہوجائے گی۔ فروری 2023 میں شروع ہونے والی اس تحریک نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور معاشی بد حالی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔ یہ تحریک لاہور سے شروع کی گئی اور کہا گیا کہ تحریک پُر امن رہے گی اور تشدد کا راستہ نہیں اپنائے گی۔
اس نے اپنے رہ نماؤں کے خلاف قومی احتساب بیورو کی جانب سے " جعلی مقدمات " کی بھی مخالفت کی۔ تحریک انصاف کی نظر میں ان کے تمام رہ نما بے قصور تھے جنہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جارہا تھا۔ تحریک انصاف نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس کے رہ نماؤں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور میڈیا پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ جیل بھرو تحریک میں آزادانہ گرفتاریاں پیش کی جاتی تھیں لیکن بہت کم لوگوں نے ایسا کیا اور جلد واضح ہوگیا کہ یہ تحریک ناکامی کی طرف گام زن ہے۔ لاہور کے علاوہ پشاور، ملتان، راول پنڈی اور فیصل آباد میں کچھ لوگوں نے گرفتاریاں دیں مگر پھر یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔
نو مئی کے واقعات
نو مئی 2023 کو پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو پہلی مرتبہ گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں قومی احتساب بیورو نے گرفتار کیا گیا ،اُن پر القادر ٹرسٹ کے معاملے میں بدعنوانی کے الزامات تھے۔ اس گرفتاری کے ساتھ ہی عمران خان نے تحریکِ انصاف کو بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل عمران خان کئی مہینوں تک مختلف عدالتوں سے رعایات حاصل کرتے رہے تھے اور مختلف حیلوں بہانوں سے یا تو عدالت میں پیش ہی نہ ہوتے تھے یا پھر ایسے حالات پیدا کردیتے تھے کہ ان کی گرفتاری نہ ہوسکے۔
اس گرفتاری سے ایک روز قبل ہی فوج نے آئی ایس پی آر کے ذریعے واضح کیا تھا کہ عمران خان آئی ایس آئی پر جو الزامات لگا رہے ہیں وہ سب غلط ہیں اور عمران خان کو قتل کرنے کی کوئی سازش نہیں ہورہی اور نہ ہی پہلے ایسی کوئی کوشش کی گئی ہے۔ گرفتاری کے بعد اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور میں تحریکِ انصاف کے حامیوں نے ہنگامے شروع کر دیے۔ راستے بند کرنے کی کوشش کی گئی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اس طرح ملک میں ایک طرح کی بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کوشش کو ناکام بنادیا گیا۔ یقیناً یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
قومی اسمبلی کی تحلیل
اگست 2023 میں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی گزارش پر صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی اور اگلے دو دنوں میں سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی تحلیل کردی گئیں۔ بارہ اگست کو انوار الحق کاکڑ نے نگراں وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور پھر ایک ہفتے کے اندر ہی مقبول باقر نے سندھ میں، علی مردان ڈومکی نے بلوچستان میں نگراں وزیر اعلی کے عہدے سنبھال لیے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آئینی طور پر تین ماہ میں انتخابات کرانے لازمی تھے لیکن چوں کہ پنجاب اور کے پی میں تحریکِ انصاف کی جلد بازی کے باعث یہ روایت توڑی جاچکی تھی اس لیے مرکز میں بھی آئینی ذمہ داری پوری نہ کی گئی اور الیکشن کمیشن نے بھی اس میں تاخیر کے لیے مختلف وجوہ پیش کردیں۔ بالآخر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی مداخلت سے الیکشن کمیشن کو انتخاب کی تاریخ اور طریقہ کار کا اعلان کرنا پڑا۔ تمام تر حجت کے باوجود اب لگتا یہی ہے کہ الیکشن فروری میں ہوجائیں گے۔
2023 میں دہشت گردی کی صورت حال
دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اُٹھایا اور پورے ملک میں سیکڑوں واقعات ہوئے جن میں دہشت گردوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام لوگوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اخبارات میں آنے والی خبروں کے مطابق 15 دسمبر تک پورے ملک میں تقریباً ساڑھے سات سو ایسے واقعات ہوئے جن میں یا تو دہشت گردی ہوئی یا پھر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد ان کارروائیوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں سب سے زیادہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں ہوئیں۔
کے پی میں تقریباً ساڑھے نو سو افراد اپنی جان سے گئے اور بلوچستان میں تین سو نوے لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ بلوچستان میں تقریباً دو سو حملے اور جوابی کاروائیاں ہوئیں جب کہ، کے پی میں چار سو کے قریب حملے اور جوابی کاروائیاں کی گئیں۔ پندرہ دسمبر تک آنے والی خبروں کے مطابق اموات کی تعداد آزاد جموں کشمیر میں ایک، بلوچستان میں تقریباً چار سو، گلگت بلتستان میں تقریباً بیس اور کے پی میں تقریباً ساڑھے چار سو لوگ لقمہ اجل بنے پنجاب اور سندھ میں ایسے افراد کی تعداد ابالترتیب تقریباً پچاس اور پینسٹھ رہی۔
سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ رہی کہ 2023 میں سکیورٹی اور سویلین افراد جو دہشت گردی کا نشانہ بنے ان کی تعداد ساڑھے نو سو رہی جب کہ پانچ سو سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے۔ 2023 میں بلوچ باغی اور جہادی جنگ جو سرگرم عمل رہے اور انہوں نے نوے سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ تیس حملوں کی ذمہ داری بلوچ باغیوں نے قبول کی جن میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) سر فہرست رہی جس نے بیس حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا، جب کہ دیگر حملے بی ایل ایف (BLF) اور بی ایل ٹی (BLT) جیسی تنظیموں نے کیے۔ تحریک طالبان پاکستان نے تقریباً پچاس حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ جب کہ ایک نسبتاً نئی تنظیم تحریکِ جہاد پاکستان (TJP) نے چھ حملے کیے۔ داعش یا اسلامی اسٹیٹ (IS)نے بھی پانچ حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔