• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مردم شماری: کراچی کی اسمبلی نشستیں کم ہونے کا امکان؟

سعید غنی
 سعید غنی

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کاپہلے مرحلے کے انعقاد کو ایک سال سے زائد جبکہ دوسرے مرحلے کے الیکشن کو ہوئے چار ماہ بیت چکے تاہم بلدیاتی ادارے مکمل نہیں ہوسکے شنیدہے کہ یہ ادارے جون کے آخرتک مکمل ہوجائیں گے۔سندھ کے 26اضلاع میں پہلے اور دوسرے مرحلے کے ضمنی بلدیاتی الیکشن کے لیے اب پولنگ 7 مئی بروز اتوار ہوگی۔ یاد رہے کہ سندھ میں مختلف کیٹگریز کی 93نشستوں پر انتخابات ہونا ہیں کراچی میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کی 11 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث الیکشن شیڈول ہیں۔

کراچی کی میئرشپ کے لیے پی پی پی کے سعید غنی، مرتضی وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن کے درمیان تندوتیز جملوں کا تبادلہ جاری ہے حافظ نعیم الرحمٰن اپنے آپ کو میئر بنانے کے لیے کوشاں ہیں پی پی پی اس وقت بلدیاتی انتخاب کے نتائج کے مطابق سب سے بڑی جماعت ہے تاہم 7 مئی کے انتخاب کے بعد بھی کوئی جماعت اکیلے قطعی اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے 38ارکان کی حمایت درکارہوگی تو پی پی پی کو پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بنانا پڑے گا تب کہیں جاکر یہ جماعتیں اپنا میئر لاسکتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ 7مئی کے بعد کراچی کی میئرشپ کا جواربھاٹا کس موڑ موڑتا ہے۔ 

ادھر ملک میں ڈیجٹیل مردم اور خانہ شماری شدید تنازعات میں گھیر چکی ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر سے متعلق اعدادوشمار اور نقل مکانی کے رحجان کو عام شہریوں سمیت خود سیاست دان بھی درست تسلیم کرنے کوتیار نہیں،مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی اندازاً ایک کروڑ74لاکھ سے کچھ زائد جبکہ حیدرآباد کی ایک کروڑ20لاکھ کے لگ بھگ دکھائی گئی ہے۔

ان نمبرز پر خود سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ،متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ مردم شماری کی تاریخ میں دوبارہ توسیع کی جاچکی ہے۔ لیکن نتائج اب تک مرتب نہیں کئے جاسکے ہیں۔ وفاقی شماریات ڈویژن بھی تذبذب کا شکار ہے، حکام نتائج کو سب کے لیے قابل قبول اور درست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ 

بااعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں کئی علاقوں میں مردم شماری کا عملہ پہنچا ہی نہیں ہے جبکہ خدشہ ہے کہ دیہی علاقوں میں عملے نے گھر بیٹھے ہی اندراج کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کوئی قوت اپنی مرضی کے مطابق چاہتی ہے مردم شماری کے نتائج پر حلقہ بندیاں اور ووٹرز لسٹیں بنے گی یہ بھی شمار کیاجارہا ہے کہ پنجاب کی سات کراچی کی ایک قومی اسمبلی جبکہ 3صوبائی اسمبلی کی نشستیں ان نتائج کی بنیاد پر کم ہوسکتی ہے یہ آنے والے الیکشن کی قبل ازوقت دھاندلی کی کوشش محسوس ہوتی ہے اب تک سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے بعد کراچی کی آبادی ایک دن میں پونے پانچ لاکھ بڑھ گئی کراچی کی آبادی ایک کروڑ 74لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ مردم شماری میں سندھ کی آبادی اب تک ساڑھے پانچ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔

مردم شماری کے مسئلے پر سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں پی پی پی، تحریک انصاف، تحریک لبیک، جماعت اسلامی سمیت قوم پرست جماعتیں سراپا احتجاج ہے پی ٹی آئی نے مردم شماری کے نتائج کے خلاف گزشتہ ہفتے شہر کے 29مقامات پر دھرنے دیئے جبکہ جماعت اسلامی نے اس ضمن میں شاہراہ فیصل پر ریلی نکالی،ادھروزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے تحفظات دور نہ ہونے کی صورت میں مردم شماری کے نتائج مسترد کرنے کا اعلان کردیا ہے سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی مردم شماری میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ احسن اقبال کوارسال کردہ خط میں وزیراعلیٰ نے واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ تحفظات دور نہیں ہوئے تو مردم شماری کے نتائج حکومت اور سندھ کے شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔

وزیراعلیٰ نے وزیرمنصوبہ بندی سے کہاکہ آپ کی سربراہی میں ہونے والی ڈیجٹیل مردم شماری ان تحصیلوں، تعلقوں میں30 اپریل کوختم کی جارہی ہے جہاں آبادی مردم شماری کے دوران ایک مخصوص سطح پر آگئی ہے، ہمیں ان تحصیلوں ،تعلقوں میں آبادی فریزکرنے کے فیصلے پر سخت تحفظات ہیں، اگر اس طرح کا بینچ مارک عالمی طور پر لاگوہوتا تو مردم شماری کرانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ آبادی میں اضافے کا اندازہ اس معیار کی بنیاد پر آسانی سے لگایا جاسکتا تھا۔ مرادعلی شاہ کا خط میں کہنا ہے کہ ہمارے تحفظات نہیں سنے جارہے ہیں، سندھ کے تمام اضلاع میں مردم شماری اس وقت تک جاری رہنی چاہئےجب تک کہ ہر گھر اور ہر فرد شمار نہیں ہوجاتا۔

جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی اور مصطفی کمال نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کراچی سے ناانصافی سوچا سمجھا منصوبہ ہے اداروں نے غلطی تسلیم کرلی لیکن تدارک نہیں کیا خود کو گنوانے کے لیے پورے ملک کے چکرکاٹنے پڑے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساتویں مردم شماری سندھ میں متنازعہ ہی رہے گی اور سیاسی جماعتیں اسے تسلیم نہیں کریں گے، ادھر گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی پانی وبجلی کا بحران بھی سراٹھانے لگا۔ 

کے الیکٹرک نے آمدنی میں کمی کا جوازتراش کر شہر میں لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے،جبکہ پہلے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں چھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، جس میں لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ علاقے بھی شامل کرلیے گئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ میں اضافے کے سبب پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے پانی کی قلت کی گونج عدلیہ تک میں سنائی دینے لگی ہے،سندھ ہائیکورٹ نے ڈی ایچ اے، کلفٹن کے مکینوں کو پانی کی عدم فراہمی پر کراچی واٹراینڈسیوریج بورڈ، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے پانی فراہمی کے معاہدے کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جسٹس عقیل احمدعباسی کی سربراہی میں دورکنی بینچ کے روبروڈی ایچ اے کلفٹن کے مکینوں کو پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کراچی میں 6 کنٹونمنٹ بورڈ ہیں،4 کنٹونمنٹ بورڈز میں مکمل پانی آرہا ہے ، صرف کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے میں پانی نہیں آرہا ہے۔ 

جسٹس عقیل احمدعباسی نے ریمارکس دیئے کہ ڈی ایچ اے کوبنے40 سال ہوگئے ہیں اپنے رہائشیوں کو پانی تک نہیں دے سکا ہے پہلے ڈی ایچ اے سوسائٹی تھا اب اتھارٹی بنے بھی 30 سال ہوچکے ہیں ڈی ایچ اے کے مکین پانی کی بوندبوند کوترس رہے ہیں، بظاہر لگتا ہے کہ شہر میں مافیازآپریٹ کررہے ہیں لوگوں کی چاندی لگ رہی ہے۔ 

ادھر سندھ کے کچے کے علاقے میں جاری آپریشن میں ڈاکوؤں کا پلہ بھاری نظرآتا ہے آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبڑی کامیابی نہیں ملی حالانکہ ڈاکوؤں کی سر کی قیمتیں مقرر کی جاچکی ہے تاہم آپریشن میں درجن سے زائد پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں جبکہ اغوابرائے تاوان کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید