• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا انتخابات واقعی اکتوبر میں ہوں گے؟

صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت پنجاب بھر میں انسانی جان سستی اور آٹا مہنگا ہوگیا۔ بنیادی ضرورت آٹے کے حصول کے لیے چار روز میں آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے مہنگائی کا ایسا طوفان جو زندگیاں بہا لے جائے اس کے سامنے انتخابات کی بھلا کیا حثیت ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ مہنگائی غربت مفلسی اور بے روزگاری کے طوفان کے آگے پی ڈی ایم کی حکومت کی حیثیت خس و خاشاک کی ہوچکی ہے جنہیں طوفانی لہریں اپنے ساتھ بہائے پھرتی ہیں۔ ممکنہ عام انتخابات میں مہنگائی کا طوفان حکمران اتحاد کے بڑے بڑے برج الٹآتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت اور اس کے اتحادی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر تے نظر آرہے ہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت بھی انتہائی متعصبانہ اور جانبدرانہ اقدامات کرتے دکھائی دے رہی ہے ۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ نگران حکومت جس کا اصل مینڈیٹ ہی آئینی مدت میں عام انتخابات کروانا ہوتا ہے وہ اپنی تمام تر توانائیاں انتخابات کے التواء اور ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے میں صرف کر رہی ہے اس ساری صورتحال میں کیا انتخابات اکتوبر میں ہونگے یا نہیں ؟ نگران حکومت کی تمام تر توجہ تحریک انصاف کو کارنر کرنے پر مرکوز ہے جس کے باعث بیورو کریسی اور حکومتی مشینری پوری طرح سے کام نہیں کر رہی۔ 

یوں مشکل معاشی صورتحال میں بھی جو ریلیف شہریوں کو مل سکتے ہیں وہ بھی نہیں مل پا رہے۔ اس صورتحال سے عام آدمی کی مشکلات دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ عوام کے غم و غصہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت "کسی اور "سے ہدایات لیتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے جس کے زیادہ تر فیصلے انتہائی متنازعہ اور غیر مقبول دکھائی دے رہے ہیں رمضان المبارک میں ذاتی حیثیت سے لنگر خانے اور مفت دستر خوان سجانے کے حوالے سےشناخت رکھنے والےمحسن نقوی کے دور حکومت میں مفت آٹےکے حصول کے لیےقیمتی انسانی جانوں کاضیاع ان کے دور حکومت پر لگنے والا کلنک کا ایسا داغ ہے جو کسی طرح بھی دھویا نہ جاسکے گا۔ 

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پر ہونے والے پولیس کے سرچ آپریشن اور وارنٹ گرفتاری کے لیے کیا جانے والا طاقت کا استعمال اپنی جگہ ہے تاہم جس قوت کا استعمال نگران حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کو روکنے اور ہر صورت ناکام بنانے کے لیے کیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی نگران حکومت کی جانب سے مینار پاکستان جلسہ کے موقع پر کارکنان کی پکڑ دھکڑ اور جلسے کو ناکام بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے نگران حکومت کی جانب داری کو واضح کردیا ہے جس کے بعد نگران حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوچکی ہے۔ 

تحریک انصاف کے کارکنان کی پکڑ دھکڑ کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی و خارجی راستوں اور شہر کے اندرمختلف مقامات پر کھڑے کیے جانے والے کنٹینرز نےشہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس سے لاہور کانا صرف دوسرے شہروں بلکہ لاہور کے مختلف حصوں کا ایک دوسرے سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا تھا شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم رکھنے کا عمل رات گئے تک جاری رہا اور شہر کے مختلف حصوں کا آپس میں رابطہ کی گھنٹوں تک منقطع رہا تاہم تمام تر مشکل صورتحال کے باوجود تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر تاریخی جلسہ کرکے کامیابیوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں انتظامیہ کی جانب سے گراؤنڈ میں کئی روز پہلے سے پانی کھڑا کر دیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی ضلع انتظامیہ کی جانب سےجلسہ کی اجازت نہیں مل رہی تھی کبھی تاریخ اور کبھی جلسہ کا مقام تبدیل کرنے کے لیے تحریک انصاف پر دبائو ڈالا جاتا رہا۔ 

دوسری جانب سے عمران خان کی گرفتاری کیلئے چھاپے اور عدالتوں میں پیش یو کا سلسلہ بھی جاری رہا ویسے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور انہیں محدود کر کے دیگر شہروں کے کارکنان کو لاہور جلسے میں پہنچنے نہ دیا گیا اس تمام تر صورتحال کے باوجود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مینار پاکستان میں تاریخی جلسہ کر کے کارکنان کونئی جلا بخشی اگر جلسے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں اور شہریوں کی آمدورفت کو محدود کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے جاتے تو بلاشبہ یہ جلسہ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیتا عمران خان نے جلسے میں عدلیہ کی تعریف و توصیف کی جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا عمران خان کی موجودہ پالیسیاں اور حکمران اتحاد اور نگران حکومت کی بدحواسیاں بلاشبہ تحریک انصاف کے ورکرز اور سپورٹر کو مزید چارج کر رہی ہیں جبکہ عام شہریوں کو بھی عمران کے موقف کا حامی بنا رہی ہیں ایسے میں اگر عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ بات بعد از قیاس نہیں کہ تحریک انصاف اس میں نمایاں طور پر کامیابی حاصل کرلے گی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید