وزیر خارجہ اسحاق ڈار جو ان دنوں وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس میں شرکت کیلئے سعودی عرب میں ہیں، ان کو نائب وزیراعظم کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے ساتھ ہی جہاں ایک طرف انہیں مبارکبادیں اور تہنیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا وہیں ناقدین کی جانب سے اسے غیر ضروری حکومتی اقدام نمائشی اور بے اختیار عہدہ قرار دیتے ہوئے بھی تنقید کا سلسلہ جاری ہے جسے عدالت میں چیلنج کئے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں، پھر بلخصوص دارالحکومت کے سیاسی کلچر کی روایات کے پیش نظر حکومت کے مخالفین نے اس حکومتی فیصلے پر ’’سازشی تھیوریوں‘‘ کے قلابوں کا بھی انبار لگا دیا۔
کہا جارہا ہے کہ بیرون ممالک سے ہنگامی انداز میں نوٹیفکیشن جاری کرانا بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے اور یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کو کمزور کرنے کیلئے کرایا گیا ہے۔ بعض حلقے اس فیصلے کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی خواہش کی تکمیل قرار دے رہے ہیں۔ یہ دعوٰی بھی کیا جارہا ہے کہ نائب وزیراعظم کے عہدے کو آئینی طاقت اور اختیارات بھی دیئے جاسکتے ہیں، دوسرے عوامل کے علاوہ اسے حکومتی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ اس لئے بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ کسی وزیراعظم نے پہلی مرتبہ اپنے غیر ملکی دورے میں ساتھ جانے والے وزیر کو ایک اہم منصب پر نہ صرف فائز کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ اس کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرنے کے احکامات بھی وہیں سے جاری کئے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے آئین میں نائب وزیراعظم کا باقاعدہ کوئی عہدہ موجود نہیں ہے اس لئے اس عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھایا جاتا، یہ عہدہ پہلی مرتبہ 25 جون 2012 کو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے مطالبے پر پہلی مرتبہ تخلیق کیا تھا۔ اسحاق ڈار جو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی بااعتماد اور قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں اور مسلم لیگ کے اہم راہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں مالیاتی اور اقتصادی امور پر دسترس رکھنے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں انہیں پہلی مرتبہ 1998 میں اور دوسری مرتبہ 2013 میں ملک کا وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔
اپریل 2022 میں جب تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت میں پہلے پانچ ماہ مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا، تاہم ستمبر 2022 کے آخر میں اسحاق ڈار کو ایک بار پھر وزارت خزانہ مل گئی۔ گوکہ نوٹیفکیشن میں نائب وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریوں کا کوئی ذکر موجود نہیں لیکن اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنی عدیم الفرصتی میں ان کے دائرہ اختیار کی سیاسی مصروفیات اور ذمہ داریاں وہ اپنے نائب وزیراعظم کے سپرد کردیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر مملکت کی ملک میں عدم موجودگی میں سینیٹ کے چیئرمین قائم مقام صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کا آئینی کردار ادا کرتے ہیں جبکہ وزیراعظم کی موجودگی میں ماضی میں عموماً کابینہ کے سینئر وزیر غیر اعلانیہ طور پر یہ ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں، اس ضمن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں سینئر وزیر چوہدری نثار علی خان کا حوالہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا اسحاق ڈار خارجہ امور کی اہم وزارت اپنے پاس ہی رکھیں گے یا یہ وزارت حکومت کسی اور کو سونپ دے گی۔