وزیراعظم شہبازشریف مختلف شہروں کے دورے کے بعد مفت آٹے کی تقسیم کے نظام کا جائزہ لینے کے لئے ملتان بھی آئے ، اہل ملتان نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ سپورٹس گراؤنڈ ملتان میں جہاں ہزاروں افراد جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی تھی ،پولیس کے ڈنڈے کھاتے، دھکم پیل سے گزرتے، بڑی مشکل سے سپورٹس گراؤنڈ میں داخل ہوتے، اس کے بعد گھنٹوں انتظار کرتے ،بڑی مشکل سے کسی کا نمبر آتا، تو اسے آٹا مل جاتا، رش اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ اسپورٹس گراؤنڈ کے باہر دورویہ فلائی اوور پر بھی ٹریفک جام رہتی اور لوگ انتظامیہ کی نااہلی پر بددعائیں دیتے نظر آتے ،مگر 26مارچ کو جب وزیراعظم شہباز شریف نے اسی سپورٹس گراؤنڈ کا دورہ کیا ، تو سارا منظر ہی بدل چکا تھا، یوں لگتا تھا کہ جیسے ڈرامے کا سٹیج ہو اور سیٹ ڈیزائنرنے پورا سیٹ ہی بدل کر رکھ دیا ہو ،دونوں سٹرکیں خالی پڑی تھیں، اسپورٹس گراؤنڈ کا سٹیٹ بنک کی جانب سے جانا والا گیٹ ویران پڑا تھا، اندر کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے آٹے کے کاؤنٹرلگے ہوئے تھے، ان کرسیوں پر نہ جانے وہ خوش نصیب کیسے منتخب کئے گئے تھے، جنہیں اس دن مفت آٹے کی تقسیم کے لئے بلایا گیا تھا۔
اس خوبصورت منظر کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف خوش ہوئے ہوں گے کہ مفت آٹے کی تقسیم کا مرحلہ بڑے نظم و ضبط کے ساتھ جاری ہے، غریبوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جارہا ہے اور انہیں مفت آٹا لیتے ہوئے کسی قسم کی دشواری کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑ رہا ،کاش وزیراعظم انتظامیہ سے پوچھتے کہ اب تک جو تین لاکھ سے زائد آٹے کے تھیلے تقسیم کرنے کا دعویٰ کیا جارہاہے، وہ اس رفتار سے کیسے چند دنوں میں تقسیم ہوئے، جبکہ پنڈال میں تو صرف دو تین سو افراد بیٹھے تھے، اگر ایک دن میں ہزار افراد کو بھی اس شہر سے آٹا دیا گیا ہوا،تو تعداد چند ہزار بنتی ہے۔
اگر سارے شہر کے مفت آٹا پوائنٹس میں تقسیم کی یہی اوسط لگائی جائے تو آٹا 50 ہزارکی تعداد میں بھی شاید تقسیم نہ ہوسکے ،مگر چونکہ انتظامیہ ہمیشہ حکمرانوں کو حقائق سے دور رکھتی ہے اور ایک جعلی اور مصنوعی نظام بنا کر انہیں منظر دکھاتی ہے، یہی کچھ وزیراعظم کے ساتھ ملتان کے دورے میں بھی ہوا، حالانکہ یہ وہی ملتان شہر ہے جہاں ایک شخص آٹے کی دھکم پیل کی وجہ سے اپنی جان ہار چکا ہے اور درجنوں خواتین رش کی وجہ سے بے ہوش اور زخمی ہوچکی ہیں ،مفت آٹے کی تقسیم کا یہ نظام اس لئے بھی کامیاب ثابت نہیں ہوسکا کہ اس کے لئے کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔
کوئی ایسا میکنیزم نہیں بنایا گیا ،جو اتنےبڑے پیمانے پر مفت آٹے کی تقسیم کے اس نظام کو عملی طور پر اور احسن طریقہ سے کامیاب ثابت کرسکتا ہو، یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب مختلف شہروں کا دورہ کرکے سنٹروں کا معائنہ تو کررہے ہیں ،مگراس کا فائدہ اس لئے بھی کچھ نہیں کہ حقیقت کچھ ہے اور منظر کچھ دکھایا جارہا ہے، اس مفت آٹے کی تقیسم کی آڑ میں 10کلو آٹےکے تھیلے کی قیمت پانچ سو روپے بڑھا دی گئی ہے ،گویا انہی لوگوں سے جنہیں مفت آٹا فراہم کیا جارہا ہے۔
اب حکومت سارا سال مہنگے آٹے کے ذریعے ان کی جیبیں خالی کرتی رہے گی، 53ارب روپے کی یہ سبسڈی بالآخرعوام کے لئے وبال جان بن جائے گی ،ممکن ہے، سیاسی طورپر حکومت کو وقتی فائدہ ہو ،مگرحقیقت یہ ہے کہ اس آٹے کی تقسیم کے برے نظام اور آٹے کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے بالآخر حکومت کو عوام کے منفی ردعمل کا ہی سامنا کرنا پڑے گا، اب پنجاب حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو دس دس کلو کے دو تھیلے دو مراحل میں دینے تھے، وہ 20کلو کا تھیلا ایک ہی مرحلہ میں دیا جائے گا، اس سے کم ازکم عوام کی ان مشکلات میں کمی آئے گی، جو انہیں مفت آٹے کے حصول کے لئے اس ناقص نظام کی وجہ سے پیش آرہی ہے۔
پریشان تو وہ امیدواران بھی ہیں، جنہوں نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے اور اب الیکشن مہم کے لئے پر تول رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے چاند رات کو الیکشن ملتوی کرنے کے اعلان نے سب کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے ،خاص طور پر تحریک انصاف کے امیدوار بہت پرجوش اور پرامید تھے کہ انتخابات ہوں گے، تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر پنجاب اسمبلی میں واپس آجائیں گے، مگر الیکشن کمیشن نے 30اپریل کی تاریخ کو 8اکتوبر میں بدل کر ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دے دیا ہے اور اس بحران کی وجہ سے جہاں بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے، وہیں سیاسی بے چینی بھی رفتہ رفتہ اپنے عروج کی طرف جارہی ہے ،لاہور میں تحریک انصاف نے جو بڑاجلسہ کیا ہے، اسے ناکام بنانے کےلئے حکومت نے وہی روایتی ہتھکنڈے آزمائے ،جو ہمیشہ ہماری سیاست کا جزو رہے ہیں ، لاہور میں کنٹینر لگائے گئے، تو باقی پنجاب میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ،ملتان سے چھ سو سے زائد کارکنوں و رہنماؤں کی گرفتاری کے لئے فہرست تیار کی گئی تھی ،پولیس نے رہنماؤں کے گھروں میں داخل ہوکر گرفتاریاں کیں۔
سابق ایم پی اے جاوید اختر انصاری کے گھر میں پولیس داخل ہوئی ،تو وہ موجود نہیں تھے، تو پولیس کے ان کے بیٹے کو ساتھ لے گئی، خواتین ونگ کی ڈاکٹر روبینہ اخترجو اپنے کلینک میں مریضوں کا معائنہ کررہی تھیں ،پولیس انہیں وہاں سے گرفتار کرکے لے گئی ، صوبائی اسمبلی کے امیدوار حسن خان علی زئی کو گرفتار کیا گیا ،مختلف رہنما ان گرفتاریوں کی وجہ سے روپوش ہوگئے، کچھ نے انفرادی طورپر لاہور کا سفر کیا ،پولیس ذرائع کے مطابق ملتان میں 70سے زائد رہنماؤں و کارکنوں کونقص امن کے خدشات کے پیش نظر حراست میں لیاگیا، جن پر 16ایم پی او کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں، جسے پی ٹی آئی کی قیادت نے بدترین سیاسی انتقام کی مثال قرار دیتے ہوئے ان رہنماؤں و کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پچھلے دنوں اس وقت گیلانی اور قریشی خاندانوں میں نوک جھونک دیکھنے میں آئی ،جب پی پی 219میں پیپلزپارٹی کی طرف ایم این اے علی موسی ٰ گیلانی کے کاغذات جمع کرانے کی خبر سامنے آئی ،اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کے دو مذید امیدوار بھی موجود ہیں ،جو اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور دونوں بھائی ہیں، ان کے آپس میں اختلاف کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی بجائے حلقہ میں مظبوط امیدوار کھڑا کیا جائے ،اس لئے گیلانی خاندان کی طرف سے علی موسی نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔
بعدازاں دونوں بھائیوں ارشد راں اور عباس راں کے والد نے پارٹی قیادت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ دونوں میں صلح کے بعد ایک متفقہ نام دیں گے ،جس پر علی موسی گیلانی کے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا کہا ،یہ خبر شاہ محمود قریشی کو ملی ،تو انہوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئےعلی موسی اور گیلانی خاندان کو چیلنج کردیا کہ وہ میدان سے نہ بھاگیں اور ہمارے امیدوار کا مقابلہ کریں۔
اس بارے میں جب سیدیوسف رضا گیلانی سے صحافیوں نے سوال کیا، تو انہوں نے بھی اسی رنگ میں جواب دیا کہ یہ دوبچوں علی موسیٰ گیلانی اور شاہ محمود قریشی کا معاملہ ہے ،وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہیں گے ،تاہم شاہ محمود قریشی گھبرائیں نہیں ،ہم میدان سے بھاگنے والے نہیں ہیں ۔ادھر مظفرگڑھ سے سابق ایم این اے جمشید دستی عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں ،سوشل میڈیا پراس دن کے بعد سے ان کی سیاسی مخالفین ایسے ویڈیو کلپس پوسٹ کررہے ہیں ،جن میں وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف دھواں دار بیانات دے رہے ہیں ،جمشید دستی پچھلے کچھ عرصہ میں سیاسی طورپر اہمیت کھو رہے تھے ،کیونکہ 2018ء کے انتخابات میں وہ اپنی نشست برقرار نہیں رکھ سکے تھے۔
انہوں نے اپنی پارٹی عوامی راج پارٹی کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا ،اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے مہرارشاد سیال 53ہزارسے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جمشید دستی 50ہزارووٹ لے سکے تھے ،جبکہ پی ٹی آئی کی تہمینہ دستی نے 33ہزارسے زائد ووٹ لئے تھے ،اب جبکہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں ،اگر انہیں تحریک انصاف ٹکٹ دیتی ہے ،تو مظفرگڑھ سے تحریک انصاف کو ایک اورسیٹ ملنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔