نئی حکومت کی آزمائشیں جاری ہیں۔ ہنی مون پیریڈ اور رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہوتے ہی اس کے سامنے مسائل کے پہاڑپوری طرح سر اٹھاکر کھڑے ہوچکے ہیں۔ رہی سہی کسرحزب اختلاف کی جماعتیں ،بالخصوص پی ٹی آئی پوری کررہی ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ ملک میں کچھ بھی مثبت نہیں ہورہا۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت حکومت اور اس کے اتحادی تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔ ایک جانب ہوش ربا منہگائی اور آئی ایم ایف سے نئے قرض کے لیے مذاکرات اس کے لیے بہت بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور دوسری جانب ملک میں جاری سیاسی کش مکش اس کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ابھی ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔
ابھی چھ جج صاحبان کے خط کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا تھا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات سامنے آگئے اور ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ اس ضمن میں دل چسپ بات یہ ہے کہ حکومت میں شامل جماعتیں اس رپورٹ سے متفق اور مطمئن نظر نہیں آتیں ، لیکن پی ٹی آئی اسےباقاعدہ طورپر جاری کرنے اور اس کی سفارشات پر عمل کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔حالاں کہ یہ کمیشن سابق نگراں حکومت نے تشکیل دیاتھاجسے پی ٹی آئی ماننے کو تیار نہیں تھی اور اسے پی ڈی ایم کی حکومت کی توسیعی شکل قرار دیتی تھی۔
اسی دوران میاں نواز شریف کے حوالے سے کئ خبریں سامنے آئیں۔ ایک خبر میں ان کی بعض سینئر صحافیوں سے ملاقات کا حوالہ دے کریہ تاثر دیا گیا تھاکہ وہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور اسی لیے وہ عوام کے سامنے نہیں آرہے ہیں۔ دوسری خبر میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے پارٹی کی تنظیم نو اور ناراض راہ نماؤں سے متعلق اہم فیصلہ کرلیا ہے۔خبرکے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد، نواز شریف نے پارٹی سیکریٹریٹ میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اوروہ پارٹی کے منتخب عہدے داران سے ملاقاتیں کریں گے۔ پہلے مرحلے میں وہ ضلعی سطح کے عہدے داروں سے ملیں گے اور علاقائی مسائل کے حل کے لیے اقدامات کے بارے تبادلہ خیال کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نواز شریف بہت مشکل میں نظر آ رہے ہیں، کیوں کہ ان کے بھائی کی قیادت میں ان کی جماعت گزشتہ حکومت میں سینیئر پارٹنر تھی جس کو بہت سی ایسی اقتصادی پالیسیاں نافذ کرنا پڑیں جس کا اثر ملک کے عوام پر اچھا نہیں پڑا۔
اب اگرچہ مسلم لیگ نون اتحادیوں کی مدد سے مرکز میں حکومت بناچکی ہے اور پنجاب میں اس کی حکومت با آسانی بن چکی ہے ،لیکن مرکز میں اتحادی حکومت کی مشکلات کو وہ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر قومی سیاسی قائدین کی جانب سے تسلسل کے ساتھ جاری بلیم گیم کے باعث ملک بہ دستور سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی میں گھرا ہوا نظر آ رہا ہے۔
آج ریاستِ پاکستان کو جن اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ان سے وسیع تر قومی اتحاد کے ذریعے ہی عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے۔ قومی سیاسی قیادت کو بہ ہرصورت ایک میز پر بیٹھ کر اپنے پیدا کردہ سیاسی اور آئینی مسائل کی گتھیاں سلجھانا ہوں گی۔ سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاست دانوں کو محض اپنی سیاسی مقبولیت کی خاطرحکومت اور ریاستی اداروں کو رگیدنے کی پالیسی اور ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی روش ترک کرنا ہو گی۔
اسی طرح حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی قائدین کو آئین و قانون کی پاس داری و عمل داری ملحوظ خاطر رکھنا ہو گی۔ ہمارے لیے دوسرا بڑا چیلنج دشمن کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی ہے جس کا ہماری سکیورٹی فورسز قربانیاں دے کر کافی حد تک قلع قمع کر چکی ہیں۔ تاہم افغانستان کی تبدیل شدہ صورت حال میں بھارت کو دوبارہ دہشت گردی کے ذریعے ہماری سلامتی پر وار کرنے کا موقع ملا ہے اور مخصوص ایجنڈے کے تحت دہشت گردوں نے ہماری سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ دہشت گردی کی اٹھنے والی یہ نئی لہر ملک کی سول اور عسکری قیادتوں سے مکمل طور پرمتحد ہونے کی متقاضی ہے۔
ہمیں اس وقت سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی کے بڑے اور فوری توجہ کے متقاضی مسائل بھی گھیرے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں سیاسی انتشار بڑھے گا تو ہماری سلامتی کے درپے ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ہی اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ سیاسی عدم استحکام کی جانب صدر ِ مملکت، آصف علی زرداری نے بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت کم ہے، ہمیں سیاسی بحران سے نکلنا ہوگا۔ درپیش مشکلات میں ہم اختلافات لے کر نہیں چل سکتے۔
ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے، سب کو ساتھ لے کر چلناہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا سیاسی ماحول بنانا ہو گا جس میں حِدّت کم اور روشنی زیادہ ہو، ہم سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ مشترکہ قومی مقاصد کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔ ہمارے مسائل پے چیدہ ضرور ہیں، مگر ان کا حل ممکن ہے۔ دہشت گردی ایک بار پھر سراٹھارہی ہے،‘ دہشت گردی سے ہماری قومی سلامتی، علاقائی امن و خوش حالی کو خطرہ ہے۔ پڑوسی ممالک سے دہشت گرد گروہوں کا سختی سے نوٹس لینے کی توقع رکھتے ہیں۔
صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں تمام صوبوں میں تعلقات بہتر اور اداروں میں ہم آہنگی پیداکرنا ہوگی۔ معیشت کی بحالی کے لیے سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ہمیں نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔ آج ہمارے ملک کو دانش مندی اور پختگی کی ضرورت ہے۔ تمام لوگوں اور صوبوں کے ساتھ قانون کے مطابق یک ساں سلوک ہوناچاہیے۔
اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری اورعوامی ضروریات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ہمارے پاس ضایع کرنے کے لیے وقت نہیں۔ پولرائزیشن سے ہٹ کر عصرِ حاضر کی سیاست کی طرف بڑھنا ملکی ضرورت ہے۔ اس ایوان کو پارلیمانی عمل پر عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ سوچنا ہوگا کہ اپنے مقاصد، بیانیے اور ایجنڈے میں کس چیز کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اس خطاب کے ذریعے وفاق کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز شخصیت نے سیاست دانوں اور عوام کو واضح طور پر یہ بتایا کہ ملک میں نئے انتخابات ہونے اور نئی حکومت بننے کے باوجود سیاسی پولرائزیشن خطرناک حد تک موجود ہے، اقتصادی حالات دگر گوں ہیں اورہمارے پاس سنبھلنےکے لیے وقت بہت کم ہے۔
اقتصادی حالات کی خرابی کو کم کرنے اور اس ضمن میں فوری اقدامات اٹھانے کے لیے پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل ،ایس آئی ایف سی ،قائم کی گئی تھی جس نے اس وقت ایک سمت کا تعین کیا تھا۔ نگراں دور حکومت میں بھی اس سمت میں کام ہوتا رہا تھا۔ اسی ضمن میں گزشتہ دنوں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان وزراء کے وفد کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔
خبروں کے مطابق اس وفد کے ذریعے پاکستان نے سعودی عرب کو اس کے تمام تر بڑے خدشات کے سدباب کا وعدہ کرتے ہوئے32ارب ڈالرز کی ممکنہ سرمایہ کاری کے25 منصوبوں کی پیش کش کی ہےجن میں پی آئی اے، ایئر پروٹس کی نج کاری، کان کنی کی بڑی سائٹس سے گوادر تک ریلوے لنک اور بھاشاڈیم ، مٹیاری ،مورو رحیم یارخان اور، غازی بروتھا سے فیصل آبادٹرانسشمن لائنز اور سیمی کنڈکٹرچپ بنانے، فائیو اسٹار ہوٹل کی فیزیبلٹی، 50 ہزار ایکٹر اراضی کی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لیز اور10ارب ڈالرزکی گرین فیلڈ ریفائنری سمیت 25 شعبے شامل ہیں۔
گرین فیلڈ ریفائنری حب یا گوادر میں بنے گی اور اسے 20 سال تک کی ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق یہ پیشکش دورے پر آئے ہوئے سعودی عرب کے اعلیٰ سطح کے وفد کو کی گئی۔ دراصل اس کوشش کے ذریعے شہباز شریف کی حکومت ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنا اور اپنی حکومت مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن صدر مملکت کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین نے جو رویہ اختیار کیا اس کے ذریعے بیرونی دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ایک خطرناک عمل ہوگا، کیوں کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
پی ٹی آئی کے بانی اس سے پہلے آئی ایم ایف کو خط لکھ کریہ پیغام دے چکےتھے کہ پاکستان کومزید قرض دینااچھا عمل نہیں ہوگا ،کیوں کہ یہاں ان کے بہ قول عوام کی نمائندہ حکومت نہیں اور حکم راں بد عنوان ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان گزشتہ موسم گرما میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ملنے والےتین بلین ڈالرز کے بیل آؤٹ کے ساتھ ڈیفالٹ سے بال بال بچا تھا۔ لیکن قرض دہندہ کی اس امداد کا سلسلہ رواں برس مارچ میں ختم ہو چکا ہے جس کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے ایک نئے توسیعی فنڈ پروگرام کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات ایک بہت بڑا چیلنج ہے،کیوں کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت کڑی ہیں جس سے عوام کی مزید چیخیں نکلیں گی اور حکومت مزید کم زور ہوگی۔
آصف علی زرداری سے پہلے ان کے صاحب زادے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ آج بھی کچھ ایسے سیاست داں ہیں جوپی این اے پارٹ ٹولانا چاہتے ہیں، یہ سیاست داں سازش کرکے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے یہ باتیں گڑھی خدا بخش میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کی تھیں۔ ان کا کہنا تھاکہ گالم گلوچ کی سیاست سے ملک کو نقصان ہوگا۔سیاست دانوں کو چاہیےکہ مل کر عوام کو پریشانی سے نکالیں۔ جمہوریت کا نقصان ہوگا تو سب سے پہلے نقصان عوام کا ہوگا۔ سیاسی قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لیں، تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مفاہمت کےلیے کام کرنا چاہیے۔
بلاول بھٹو کا موقف تھاکہ بہت سی قوتیں جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی تھیں،وہ سازشیں کرتی رہتی تھیں، صدر زرداری نے سازشیں ناکام بنائیں۔ آج بھی کچھ سیاست داں ہیں جو پی این اے ٹولانا چاہتے ہیں۔ کچھ سیاست داں ذاتی اناکے لیے ملک اور عوام کی قسمت سے کھیلتے ہیں۔ اب وہ دھاندلی کا ڈھول بجا کرملکی معیشت اور ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق مفاہمت کی دعوت بھی دی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انہیں پی این اے ٹو کا خطرہ کیوں ہے؟کیا ان کا اشارہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کسی ممکنہ بڑی تحریک کی جانب تھایا وہ کسی اور سے مخاطب تھے؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔
سیاست میں اختلافِ رائے کوئی نئی اوربُری بات نہیں، لیکن جب پی ٹی آئی کے راہ نما، ولید اقبال یہ کہیں کہ ان کی پارٹی میں دو گروہ بن چکے ہیں اور مسلم لیگ نون کے راہ نما اور وفاقی وزیر اطلاعات، عطا تارڑ یہ کہیں کہ رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف پارٹی کے اندر رہ کر اختلاف کریں تو لوگوں کے کان کھڑے ہونا فطری بات ہے۔ پی ٹی آئی میں شیر افضل مروت ایک علیحدہ گروہ کی نمائدگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب ان دنوں رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف اپنی ہی جماعت کے بعض راہ نماوں اور حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں عوام یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا کیا پی ٹی آئی اور نون لیگ اندرونی تقسیم کا شکار ہوگئی ہیں؟ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں، کیوں کہ ملک میں پہلے ہی سیاسی افراتفری کافی ہے اور ہم سیاسی طور پر کسی مزید خرابی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔