چاگس کی بیماری کا عالمی دن

April 14, 2022

چاگس بیماری (جسے امریکی ٹریپا نوسومیاسس بھی کہا جاتا ہے) بنیادی طور پر صحت کی سہولتوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث غریب لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ برازیلین ڈاکٹر کارلوس چاگس نے 1909ء میں یہ بیماری دریافت کی تھی۔ دنیا بھر میں تقریباً 60 سے70 لاکھ افراد چاگس بیماری سے متاثر ہیں، جن میں ہر سال 10ہزار اموات ہوتی ہیں جبکہ ہر سال30سے40 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں بیماری کا پتہ لگانے کی شرح کم ہے اور صحت کی مناسب سہولتوں تک رسائی میں رکاوٹیں ہیں۔

یہ بیماری آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور اکثر طبی طور پر غیر علامتی دکھائی دیتی ہے، اسی لیے اسے اکثر ’’خاموش بیماری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کے بارے میں آگاہی پھیلانے سے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ ابتدا میں ہی علاج کی شرح کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 2020ء میں پہلی بار چاگس کی بیماری کا عالمی دن منایا گیا۔ رواں سال اس کی تھیم ’’چاگس بیماری کو شکست دینے کے لیے ہر کیس کو تلاش کرنا اور رپورٹ کرنا‘‘ ہے۔

اسباب

چاگس ایک سوزش والی متعدی بیماری ہے جو پیراسائٹ Trypanosoma cruzi کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ پیراسائٹ ’ٹرائیٹومین بگ‘ (کھٹمل کی ایک قسم) کی غلاظت میں پایا جاتا ہے۔ چاگس کی بیماری جنوبی امریکا، وسطی امریکا اور میکسیکو میں عام ہے، جو اس کیڑے کا بنیادی گھر ہے۔ یہ کیڑے دن کے وقت دیواروں یا چھتوں کی دراڑوں میں چھپ جاتے ہیں اور رات کو باہر آتے ہیں اور اکثر سوئے ہوئے انسانوں کو کاٹ لیتے ہیں۔ کاٹنے کے بعد وہ رفع حاجت کرتے ہیں اور جِلد پر پیراسائٹ چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کے بعد پیراسائٹ انسان کی آنکھوں، منہ، کٹ یا خراش، یا کیڑے کے کاٹنے سے زخم کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ کاٹنے والی جگہ کو کھرچنے یا رگڑنے سے پیراسائٹ کو جسم میں داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔ جسم میں ایک بار پیراسائٹ داخل ہونے کے بعد اس کی تعداد میں بےپناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان ذیل میںدرج وجوہات سے بھی متاثر ہو سکتا ہے:

٭ پیراسائٹ سے متاثرہ کیڑوں کے فضلے سے آلودہ بغیر پکا ہوا کھانا کھانا۔

٭ ایسے شخص کے ہاں پیدا ہونا جو پیراسائٹ سے متاثر ہے۔

٭ کسی ایسے شخص سے خون کی منتقلی یا اعضاء کی پیوند کاری کروانا، جو پیراسائٹ سے متاثر تھا۔

٭ لیبارٹری میں کام کے دوران غلطی سے پیراسائٹ کے سامنے آنا۔

٭ ایسے جنگل میں وقت گزارنا جس میں متاثرہ جنگلی جانور ہوں۔

علامات

چاگس بیماری کسی کو بھی متاثر کر سکتی ہے اور اگر اس بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو یہ شدید امراض قلب اور ہاضمہ کی تبدیلیوں کا باعث بن کر مہلک ہوسکتی ہے۔ انفیکشن کے شدید مرحلے (ایکیوٹ مرحلہ) کے دوران، چاگس بیماری کا علاج پیراسائٹ کو مارنے پر مرکوز ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو چاگس کی دائمی بیماری ہوتی ہے، ان میں پیراسائٹ کو مارنا ممکن نہیں رہتا۔

لہٰذا اس مرحلے پر علاج اور علامات کے سدّباب پر کام کیا جاتا ہے۔ انفیکشن کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ چاگس بیماری اچانک، مختصر بیماری (ایکیوٹ) کا سبب بن سکتی ہے، یا یہ ایک دیرپا (دائمی) حالت ہو سکتی ہے۔ علامات ہلکے سے شدید تک ہوتی ہیں، حالانکہ بہت سے لوگوں کو دائمی مرحلے تک علامات کا تجربہ نہیں ہوتا۔

ایکیوٹ مرحلہ

چاگس بیماری کا سخت مرحلہ جو ہفتوں یا مہینوں رہتا ہے، اکثر علامات سے پاک ہوتا ہے۔ جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو وہ عام طور پر ہلکی ہوتی ہیں اور ان میں انفیکشن کی جگہ پر سوجن، بخار، تھکاوٹ، دادوڑے، بدن میں درد، پلکوں کی سوجن، سر درد، بھوک میں کمی، متلی، اسہال یا الٹی، ورم شدہ غدود، جگر یا تلی کا بڑھنا شامل ہو سکتی ہیں۔ ایکیوٹ مرحلے کے دوران پیدا ہونے والی علامات عام طور پر خود ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں، اگر انفیکشن کا علاج نہ کیا جائے تو چاگس کی بیماری دائمی مرحلے تک پہنچ سکتی ہے۔

دائمی مرحلہ

چاگس بیماری کے دائمی مرحلے کی علامات ابتدائی انفیکشن کے 10سے 20 سال بعد ظاہر ہو سکتی ہیں یا یہ کبھی نہیں ہو سکتیں۔ شدید حالتوں میں، چاگس بیماری کی علامات میں بے ترتیب دل کی دھڑکن، دل بند ہو جانا، اچانک دل کا دورہ پڑنا، بڑھی ہوئی غذائی نالی کی وجہ سے نگلنے میں دشواری اور بڑی آنت کی وجہ سے پیٹ میں درد یا قبض شامل ہو سکتی ہیں۔

خطرے کے عوامل

درج ذیل عوامل چاگس کی بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں:

٭ وسطی امریکا، جنوبی امریکا اور میکسیکو کے غریب دیہی علاقوں میں رہائش۔

٭ ایسی رہائش گاہ میں رہنا جس میں ٹرائیٹومین کیڑے ہوں۔

٭ کسی ایسے شخص سے خون کی منتقلی یا اعضاء کی پیوند کاری، جس میں انفیکشن ہو۔

جنوبی امریکا، وسطی امریکا اور میکسیکو میں اس بیماری کے خطرے سے دوچار علاقوں کو جانے والے مسافروں کے لیے چاگس بیماری کا شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ مسافر اچھی طرح سے تعمیر شدہ عمارتوں جیسے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔ ٹرائیٹومین کیڑے عام طور پر مٹی یا ایڈوب یا کھچ سے بنے ڈھانچے میں پائے جاتے ہیں۔