اداروں میں کھیلوں کی بحالی شہباز شریف حکومت کا بڑا چیلنج

April 26, 2022

ملک کو اس وقت جن بڑے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے اور اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ اتنا سادہ اور آسان کام دکھائی نہیں دے رہا لیکن عمران خان حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ملک کے ہزاروں کھلاڑی شہباز شریف حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اداروں کی ٹیموں کو بحال کردیا جائے۔ روزانہ کھلاڑیوں کی جانب سے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ اداروں کی ٹیموں کو بحال کرکے کھلاڑیوں کے روز گار کو شروع کیا جائے۔ ساڑھے تین سال پہلے جب عمران خان وزیر اعظم بنے تھے تو انہوں نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کردیا تھا۔

کرکٹ ٹیموں کے ساتھ اداروں نے اپنی دیگر ٹیموں بلکہ اسپورٹس ڈپارٹمنٹ ہی بند کردیئے۔ عمران خان ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے پرانے مخالف تھے ان کی ہدایت پر ڈپارٹمنٹس کی ٹیموں کو بند کردیا گیا اور سینکڑوں کھلاڑی بے روزگار ہوکر محنت مزدوری پر مجبور ہوگئے۔ پاکستان کرکٹ میں آسٹریلوی طرز کا نظام لانے کا دعوی کیا گیا تھا۔ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی جگہ چھ ایسوسی ایشن کی ٹیموں نے لے لی۔

تین سیزن بعد بھی یہ سیٹ اپ عبوری انداز میں چل رہا ہے اور اس کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے۔ احسان مانی کے تین سالوں میں تو اس قدر تباہی ہوئی کہ ملک میں کلب کرکٹ ہی ختم ہوگئی۔ رمیز راجا نے چیئرمین بن کر کرکٹ بورڈ سیٹ اپ میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ان کے سر پر بھی تبدیلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ چند دن پہلے رمیز راجا نے اپنے اسٹاف کو بلا کر کام جاری رکھنے کا کہا، انہوں نے 30 کے قریب عہدیداران کو بلایا اور یہ ملاقات 15 منٹ جاری رہی۔

چیئرمین رمیز راجا نے عہدیداران کو کام پر فوکس کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اب غیر یقینی کی صورتحال ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ مجھے کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ رمیز راجا اس میٹنگ میں بڑے پر اعتماد تھے لیکن دوسری جانب یہ بھی باتیں ہورہی ہیں کہ جیسے ہی شہباز حکومت سیٹ ہوگی پی سی بی چیئر مین کو تبدیل کردیا جائے گا۔رمیز راجا رہتے ہیں یا نجم سیٹھی نئے چیئرمین بنتے ہیںیہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو شروع کرنا پی سی بی کے بس کی بات نہیں ہے۔

پی سی بی انہی دو سو کھلاڑیوں کی مالی مدد کرسکتا ہے جبکہ عبدالحفیظ کاردار نے اداروں کی ٹیمیں بناکر جو تاریخ رقم کی تھی اس تاریخ کو اب تبدیل کردیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جاتے جاتے ایک اور اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ بند کردیا۔ پورٹ قاسم اتھارٹی نے اپنی کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کو بند کرکے کھلاڑیوں کو ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے جہاں ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ان سے کام لیا جائے گا۔ڈائریکٹر ایچ آر ایم ذوالفقار احمد خان نے 12 اپریل کے سرکلر میں اپنی کرکٹ ٹیموں کو فوری طور پر بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

اس فیصلے سے قومی اورکئی انٹر نیشنل کھلاڑی متاثر ہوں گے جن میں شاداب کبیر، عاصم کمال، محمد سمیع، خرم منظور، تنویر احمد، کاشف جواد اولمپئین، محمد طلحہ، عبدالرؤف اور بہت سارے فرسٹ کلاس کھلاڑی اور ہاکی کے ڈومیسٹک اور انٹرنیشل کھلاڑی شامل ہیں جو ڈیسک پر کا م کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ابھی وہ کوچنگ اور پریکٹس میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنماء سید ناصر حسین شاہ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ پاکستان میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کیا جائے۔ شہباز شریف آپ پی سی بی کے پیٹرن انچیف بھی ہیں۔

اداروں میں کرکٹ بند ہونے سے ہزاروں کھلاڑی بے روزگار ہوگئے ہیں، عمران خان کے ظالمانہ فیصلے نے ہزاروں کھلاڑیوں کو متاثر کیا ہے۔ سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجا کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ عاقب جاوید نے حال ہی میں ایک بیان میں رمیز راجا کے حوالے سے کہا کہ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر اچھے انداز سے رخصت ہو جائیں۔ کرکٹر ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ایڈمنسٹریشن پاور ہونی چاہیے۔ ٹیسٹ کرکٹرکامران اکمل نے نئی حکومت سے ڈپارٹمنٹ کرکٹ کو بحال کرنے کی درخواست کردی۔

کامران اکمل نے کہا کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بندش کی وجہ سے متعدد کرکٹرز بے روزگار ہوئے ہیں ، میری نئی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ڈپارٹمنٹ کرکٹ کو بحال کرائے۔ رمیز راجا اگر اچھا کام کررہے ہیں تو انہیں عہدے پر جاری رہنا چاہیے۔ ماضی کے عظیم اسپنر ،پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے سابق چیئرمین اور نیشنل بینک اسپورٹس ڈویژن کے سابق سربراہ اقبال قاسم کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ نے پاکستانی کرکٹ کو ورلڈ چیمپین دینے میں مثالی کردار ادا کیا ہےاس لئے نئی حکومت کو چاہیے کہ ایک نظام کو وضع کرکے ملک میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کردیا جائے۔

ڈپارٹمنٹل اسپورٹس کے لئے ایک پالیسی بنائی جائے۔پاکستان کے لئے50 ٹیسٹ میں171 اور 999 فرسٹ کلاس وکٹیں لینے والے لیفٹ آرم اسپنر نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کرکٹرز کو معاشی بدحالی سے نکال سکتے ہیں۔ ہاکی اور فٹ بالرز بھی نوکریاں نہ ہونے کی وجہ سے فاکوں پر مجبور ہیں۔ ایک دور تھا جب پاکستان میں دو ہزار سے زائد کرکٹرز کے پاس مختلف ڈپارٹمنٹس میں ملازمتیں تھیں اب نئے نظام سے بمشکل دو سو کھلاڑی استفادہ کررہے ہیں۔ 68سالہ اقبال قاسم نے کہا کہ اب ڈپارٹمنٹس میں اسپورٹس ڈویژن بحال کرنے کے لئے ایک نظام وضع کیا جائے۔

میں نے جب کرکٹ شروع کی تو مجھے ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی۔ مجھے ملازمت کی فکر نہیں تھی اس لئے میں نے کرکٹ پر توجہ دی۔ اس وقت بابر اعظم سمیت دس کھلاڑی ایسے ہیں جن کے مستقبل محفوظ ہیں جبکہ وہ کھلاڑی جو اوپر آنا چاہتے ہیں انہیں سب سے پہلے معاش کی فکر لاحق ہوگی۔ہم نے نیا نظام تو بنا دیا لیکن کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ تین سال میں اس نطام نے ہمیں کیا دیا۔ تین سال میں کرکٹ میں تباہی ہوئی اور کلب کرکٹ بھی نہ ہوسکی اس لئے حکمران ملکی معاملات کے ساتھ ڈپارٹمنٹل کرکٹ پر بھی توجہ دیں۔

ہم نے ڈپارٹمنٹ بند کرکے اپنی شہ رگ کاٹ لی ہے اور گراس روٹ کرکٹ کو آئی سی یو میں پہنچا دیا۔ اس جانب ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔کرکٹرز کے علاوہ ہاکی کے انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ سوئی سدرن گیس نے سابق حکومت کے نوٹیفکیشن پر ہماری نوکریوں کو ختم کر دی تھیں۔ ہماری درخواست ہے کہ ہمیں نوکریوں پر بحال کیا جائے۔ نائب کپتان پاکستان ٹیم علی شان ، محمد توفیق ،امجد علی، یاسر شبیر، رضوان علی، محمد رضوان، محمد عدنان اور محمد جاوید نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان نے بہت سے نوجوانوں کے روزگار ختم کیے ۔

ملک کا نام روشن کرنے والے کھلاڑیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ لوگ ہم سے فخر سے ہاتھ ملاتے تھے اب ہم ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ سوئی سدرن گیس نے عمران خان کے نوٹیفکیشن پر ہماری نوکریوں کو ختم کر دیا ۔اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ بند کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔ہر جانب سے ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بندش کی مخالفت ہوئی لیکن سابق حکومت اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی۔

اب جبکہ نئی حکومت آئی ہے اور کئی پرانی پالیسیوں کو تبدیل کیا جارہا ہے اگر شہباز شریف اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کو دیرینہ مطالبہ مان لیں تو تاریخ انہیں عبدالحفیظ کاردار کی طرح ہمیشہ یاد رکھے گی۔ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بحالی مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔