چیئرمین کی اچانک تبدیلی سے پی سی بی کا سسٹم بھی متاثر ہوجاتا ہے

May 17, 2022

پاکستان میں روایت یہی رہی ہے کہ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو بھی تبدیل کردیا جاتا ہے۔ پی سی بی کے موجودہ چیئرمین رمیز راجا ،سابق وزیر اعظم عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رمیز راجا کو یہ اہم عہدہ دینے کے لئے عمران خان نے اپنے ایک اور دیرینہ دوست احسان مانی کی قربانی دی،پھر جب عمران خان کے خلاف جب اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی رمیز راجا کئی محاذوں پر عمران خان کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔

کراچی میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام نہ ہوئی تو دو منٹ میں پی سی بی چھوڑ دوں گا۔پھر انہونی ہوگئی اور عمران خان کی جگہ شہباز شریف ،وزیر اعظم بن گئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رمیز راجا کو جلد فارغ کردیا جائے گا۔ پھر گذشتہ ہفتے رمیز راجا نے پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں اپنے افسران کو یہ نوید سنائی کہ میں کہیں نہیں جارہا اور مقتدر حلقوں نے مجھے کام جاری رکھنے کی ہدایت کررکھی ہے۔ رمیز راجا بدستور پی سی بی چیئرمین ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف حکومت نے پی سی بی میں فوری تبدیلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

رمیز راجا سابق کپتان،مبصر اور لاہور میں بااثر حلقوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کا خاندان بھی با اثر ہے شائد کوئی پرانارابطہ کام آگیا ہے اور وہ پی سی بی میں سب سے طاقتور عہدے پر کام کررہے ہیں۔ اگر یہ روایت تبدیل ہوتی ہے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ چیئر مین کی اچانک تبدیلی سے پی سی بی کا سسٹم بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ رمیز راجا نے ساڑھے سات ماہ میں کئی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہوا ہےاگر انہیں وقت مل جاتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ پی سی بی کو بہتر پوزیشن میں لے آئیں۔

رمیز راجا کے لئے خطرات کم نہیں ہوئے ہیں کیوں کہ نجم سیٹھی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ نئے چیئرمین کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔ سابق کپتان اور ہیڈ کوچ مصباح الحق نے کہا کہ میرا ہمیشہ سے یہی موقف رہا کہ بار بار کی تبدیلیوں سے پاکستان کرکٹ میں جاری ترقیاتی عمل اور مثبت سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں، ہمارے ملک میں حکومت تبدیل ہو تو نئے ارباب اختیار اپنی سوچ لے کر آتے ہیں، کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پی سی بی کا سیٹ اپ تبدیل ہوا تو اگلے مرحلے میں مجھ سمیت سارا کوچنگ اسٹاف بھی بدل گیا، اس وقت بھی میں نے یہی بات کہی تھی کہ بار بار کی تبدیلیوں سے نظام کو نقصان ہوتا ہے۔

سابق کپتان عمران خان جب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے احسان مانی کو تین سال کے لئے بورڈ آف گورنرز میں نامزد کیا۔پھر آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی پی سی بی کے چیئرمین بن گئے۔ ان کی تقرری کے لئے پی سی بی آئین میں تبدیلی ہوئی اور نئے آئین میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کردیا اور چھ فرسٹ کلاس ٹیموں پر مشتمل فرسٹ کلاس سسٹم لانے کا اعلان کیا گیا اور دعوی کیا گیا کہ یہ سسٹم آسٹریلوی طرز کا ہے۔ لیکن حقائق اس سے مختلف تھے۔ سسٹم کو تبدیل ہوا لیکن کرکٹ میں بہتری نہ آسکی۔

اقرباء پروری اور میرٹ کا قتل عام جاری رہا۔نظام کے ساتھ چہرے تبدیل نہ ہوسکے۔ عمران خان ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے مخالف رہے ہیں ان سے جب فیصلے پر نظر ثانی کا کہا گیا تو وہ کہتے رہے کہ جب نظام بدلتا ہے تو ایک دم نتائج نہیں آتے، نئے ڈومیسٹک ڈھانچے سے حقیقی ٹیلنٹ اوپر آئےگا۔ عمران خان سے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق و موجودہ کپتانوں نے ملاقات کی اور ڈومیسٹک کرکٹ کے نئے ڈھانچے پر تبادلہ خیال کیا۔ سابق کپتانوں میں وسیم اکرم، مصباح الحق اور محمد حفیظ شامل تھے، ان کے علاوہ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اظہرعلی شامل تھے۔ لیکن وہ نہ مانے۔ سابق کرکٹرز نے ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈپارٹمنٹس کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے خاتمے سے مقامی کھلاڑی بے روزگار گئے ہیں۔

وزیراعظم نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کی تجویز مسترد کردی، ان کا کہنا تھاکہ ریجنل کرکٹ سب سے بہترین ڈومیسٹک اسٹرکچر ہے، پرانا ڈومیسٹک نظام ختم ہونے سے پیدا ہونے والی مشکلات کا اندازہ ہے۔عمران خان کا اپنے اس موقف پر مضبوطی سے قائم رہنا پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق، ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی اور کرکٹر محمد حفیظ کے لیے مایوس کن تھا۔ ان تینوں نےعمران خان سے ملاقات کی جس میں ان کی توجہ اداروں سے کرکٹ ٹیمیں ختم کیے جانے اور اس کے نتیجے میں کرکٹرز کے بیروزگار ہونے پر دلائی تھی۔

اس ملاقات کی خواہش ان تینوں کرکٹرز نے ظاہر کی تھی جس کے بعد انھیں وزیراعظم سے ملاقات کا وقت دیا گیا تھا۔یہ تینوں کھلاڑی وزیراعظم کو ڈپارٹمنٹل کرکٹ دوبارہ شروع کرنے پر قائل کرنے میں ناکام رہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں ڈومیسٹک کرکٹ میں اداروں کا کردار ختم کرتے ہوئے اسے صوبائی ایسوسی ایشنوں کی سطح پر استوار کیا ہے اور گزشتہ سال سے اس پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے اور ڈومیسٹک کرکٹ اب چھ ایسوسی ایشنوں کی ٹیموں کی شکل میں کھیلی جارہی ہے تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کو ابھی تک اپنی فرسٹ کلاس کرکٹ کے لیے کوئی بھی قابل ذکرا سپانسر نہیں مل سکا، تمام اخراجات اسے خود برداشت کرنے پڑ رہے ہیں جن میں کرکٹرز کو دیے جانے والے معاوضے اور کوچنگ اسٹاف کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ مصباح الحق، اظہر علی اور محمد حفیظ کو بڑی مشکل سے سمجھایا ہے کہ جب بھی آپ ریفارمز کرتے ہیں تو مشکل ضرور آتی ہے۔موجودہ کرکٹ سسٹم سے ٹیلنٹ سامنے آئے گا اور مقابلے کی فضا پیدا ہوگی۔ سخت مقابلے سے اچھے کھلاڑی سامنے آتے ہیں۔ نئے نظام سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تین سال کے لئے ملک میں کلب کرکٹ نہ ہوسکی۔اس سسٹم کو چلانے والے اس کی روح کے منافی کام کرتے رہے۔ اب پی سی بی نے دعو ی کیا ہے کہ 22-2021 میں چھ کرکٹ ایسوسی ایشنز نے پی سی بی کے اشتراک سے مجموعی طور پر 7009 میچز منعقد کروائے۔ ان میچز میں چھ کرکٹ ایسوسی ایشنز کے کل 3822 کرکٹ کلبز نے شرکت کی۔

اس دوران تمام کرکٹ ایسوسی ایشنز نے اپنی اپنی کرکٹ لیگز منعقد کروائیں، جو اکتوبر 2021 سے فروری 2022 کے درمیان کھیلی گئیں۔ ان لیگز کا مقصد دیہی اور شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو ایک واضح نظام کے تحت ڈومیسٹک کرکٹ میں شرکت کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس ضمن میں خیبر پختونوخواہ کرکٹ ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار سب سے بہترین رہے، جہاں 13 نومبر 2021 سے 20 جنوری 2022 تک کھیلی جانے والی کرکٹ لیگ میں 844 کلبز کے مابین 1530 میچز کھیلے گئے۔ بلوچستان، سینٹرل پنجاب، ناردرن، سندھ اور سدرن پنجاب میں کرکٹ لیگز 20 اکتوبر 2021 سے شروع ہوئی تھیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پی سی بی نے کلب کرکٹ شروع کرادی ہے لیکن ایسوسی سیشن کا عبوری سیٹ اپ بدستور قائم ہے۔کلبوں کی اسکروٹنی بھی آوٹ سورس سے کرانا پڑرہی ہے۔کھلاڑی ،ایسوسی ایشن کے کوچز کی شکایات کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔ چھ کرکٹ ایسوسی ایشنز کے کوچز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے تین روزہ سیشن کا پیر سے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر لاہور میں شروع ہوگا.اس دوران ڈومیسٹک کرکٹ کی فرسٹ اور سیکنڈ الیون کی ٹیموں کے مجموعی طور پر 24 کوچز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔

تمام کوچز کے انٹرویوز لیے گئے، جس کے لیے ایک باضابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں عمر رشید، شاہد محبوب اور سجاد اکبر شامل ہیں۔ پی سی بی کا کہنا ہے کہ ان کوچز کے ڈومیسٹک سیزن 23-2022 کے لیے اہداف مقرر کیے جائیں گے۔ واضع رہے کہ ایسو سی ایشن کے کوچز کے رویے پر پاکستان کے کئی کھلاڑی ناراض ہیں۔ چیرمین رمیز راجا کی چیلنجوں میں کوچز کو پروفیشنل بنانا بھی اہم نکتہ ہوگا۔ رمیز راجا اگر عہدہ بچانے میں بھی کامیاب ہوگئے تو انہیں یا پرانے سسٹم کوبحال کرکے اپنے کپتان عمران خان سے بغاوت کرنا ہوگا یا اس سسٹم میں جان ڈالنا ہوگی۔ پی سی بی چیئرمین رمیز راجا کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہوگا۔