سابق وزیراعظم قیوم نیازی کو اسپیکر بنانے کا فیصلہ

May 19, 2022

بالآخر آزاد کشمیر کابینہ کے 16وزراء، 2مشیران اور 2معاونین خصوصی کو پورٹ فولیوز تفویض کر دئیے گئے ہیں۔ کابینہ کو محکموں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جاری ڈیڈ لاک کے خاتمے کے بعد اپنے انتخابی حلقوں میں واپس پہنچنے پر ’’فلیگ ہولڈرز‘‘ کے استقبال، دعوتوں اور مبارکبادوں کا لامتناعی سلسلہ جاری ہے۔

یہ بازگشت بھی سنائی دی رہی ہے کہ آنیوالے دنوں میں اسپیکر اسمبلی چوہدری انوار الحق کو موسٹ سینئر وزیر اور سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی کو اسپیکر اسمبلی بنائے جانے کا امکان جبکہ کابینہ میں مزید اضافے کیلئے جاری آئینی قدغن کے خاتمے کیلئے بھی لابنگ کی جا رہی ہے۔

سردار تنویر الیاس خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سرکاری خزانے سے تنخواہ اور دیگر مراعات نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترے گی۔ آزاد کشمیر کے تینو ں ڈویژنز میں جدید طرز پر ٹاؤن پلاننگ کی جائے گی۔

2سو سالہ منصوبہ کے پیش نظر شہروں اور ٹاؤنز کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ جبکہ چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن آزا د کشمیر شاہ غلام قادر کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت 3ماہ کے اندر ختم ہو جائے گی۔

آزاد کشمیر میں ’’ہوائی گورنمنٹ‘‘ کے قیام کیساتھ ہی سیکرٹریٹ خالی ہو چکا ہے۔ نہ وزیراعظم نہ کوئی وزیر اور نہ ہی کوئی سیکرٹری آفس میں موجود ہے۔

وزیراعظم کے انتخاب کیلئے بلایا گیا اسمبلی اجلاس غیر آئینی تھا۔ جس میں ہم شریک نہیں ہوئے۔ اس اجلاس کو عدالت کے ذریعے چیلنج کرنے کے لیے مشاورت شروع کر رہے ہیں۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کے ترجمان ڈاکٹر عرفان اشرف نے چیف آرگنائزر ن لیگ کی گفتگو کر غیر مناسب اور غیر معیاری قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ سردار تنویر الیاس خان نے PTIآزاد کشمیر میں شمولیت، جماعتی صدارت، ممبر اسمبلی، موسٹ سینئر وزیر اور وزارت عظمیٰ کے حصول تک کا سیاسی سفر انتہائی قلیل مدت میں طے کیا ہے۔

سردار تنویر الیاس خان آزاد کشمیر کے پہلے بزنس مین وزیراعظم ہیں۔ عوامی سطح پر یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا ایک کامیاب بزنس مین، کامیاب وزیراعظم بھی ثابت ہوگا؟جو آزاد کشمیر کے عوام کو ریلیف اور دیرینہ مسائل حل کر پائے گا؟کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بزنس مین وہاں سرمایہ کاری کرتا ہے جہاں اسے کئی گنا زیادہ منافع کی توقع ہوجبکہ بعض حلقوں کے نزدیک جس طرح پاکستان میں ایک بزنس مین وزیراعظم وقت میاں نواز شریف نے شیر شاہ سوری کے بعد پاکستان کو جدید ذرائع مواصلات سے نوازا اسی طرح وزیراعظم آزاد کشمیر کا حدف دولت کمانا نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے عوام کیلئے کچھ کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔

تاہم آنیوالا وقت ہی بتائے گا کہ وہ کچھ منجھے ہوئے سیاستدانو ں کی سیاسی چالوں کا شکار ہوتے ہیں یا آزاد کشمیر کی عوام کیلئے بہتر طور پر ڈیلیور کرکے پارلیمانی تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے دور کے آزاد کشمیر میں تعینات 2لینٹ آفیسران کو تبدیل کرکے محمد عثمان کو چیف سیکرٹری اور عامر احمد شیخ کو انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر تعینات کیا ہے تاکہ آزاد کشمیر میں PTIحکومت کی لائن اینڈ لینتھ درست رہے۔ آزاد کشمیر میں پاکستان کی طرح رواں سال کے آخر تک نئے انتخابات اور تحریک عدم اعتماد کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

آزاد کشمیر کی پارلیمانی تاریخ کا اگر سرسری جائیزہ لیں تو پاکستان کی نسبت آزاد کشمیر میں جمہوری عمل اور پارلیمانی روایات بہت مضبوط ہیں۔ 1985 سے اب تک جمہوریت کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ موجودہ ممبران اسمبلی میں سے کچھ مزید ممبران سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی کی طرح بتدریج سابق وزیراعظم کا ٹائٹل حاصل کر سکتے ہیں لیکن نئے انتخابات کا امکان بہت کم ہے۔ صرف اسمبلی توڑے جانے کی صورت میں نئے انتخابات ہو سکتے ہیں۔ لیکن سنجیدہ حلقوں کیمطابق سردار تنویر الیاس خان لمبی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

صدر PPP آزاد کشمیر و ممبر قانون ساز اسمبلی چوہدری محمد یاسین کا کہنا ہے کہ بھارتی ’’حد بندی کمیشن‘‘ کی جانب سے کشمیریوں کا حق اختیار سلب کرنے کیلئے ’’جموں‘‘ کی نشستوں میں 6،ویلی کی ایک نشست کا اضافہ اور بھارتی مظالم کیخلاف پاکستان قومی اسمبلی سے متفقہ قرادادکی منظوری درحقیقت چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی کشمیریوں اور کشمیر سے وابستگی کا واضح ثبوت ہے۔ اس سلسلہ میں OICکے انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی حلقہ بندیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ OICانسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کا عمل انسانی حقوق چارٹر اور اقوام متحدہ کی کشمیرپر قرادادوں کیخلاف ہے۔

اس حوالہ سے چیرمین ppp بلاول بھٹو زرداری کی ہدائیت پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’’بھارتی حد بندی کمیشن‘‘کی جانب سے غیر قانونی و غیر جمہوری انتخابی حلقہ بندیوں کیخلاف آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں PPPآزاد کشمیر نے مظاہرہ کیا۔’’حد بندی کمیشن‘‘ کی رپورٹ نے ان مقاصد کے حصول کی بنیادرکھ دی ہے جو ’’ہندوتوا‘‘ حکومت کی خوائش تھی کے اسمبلی کے اندر ہندو ممبران کی اکثریت ہو جائے تاکہ جموں سے ترجیحاً کسی ہندو کے چیف منسٹر بننے کی راہ ہموار ہو جائے اور کشمیر کی مسلم اکثریت کا تاثر بھی ختم ہو جائے۔

تاہم مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارت نواز جماعتوں اور آزادی پسندوں نے بھی حد بندی کمیشن کی غیر منصفانہ رپورٹ کو یکسر مستر د کر دیا ہے۔ اگر حد بندی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد ہوا تو BJPاس سال کے آخر میں متوقع اسمبلی انتخابات یقینی طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کرکے 5اگست 2019؁ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی کٹھ پتلی اسمبلی سے قراداد منظور کروانے میں کامیاب ہو سکتی ہے جو کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے بھی بڑا عمل ہوگا۔