خالد حمید فاروقی کی صحافتی خدمات نئے آنے والوں کیلئے مشعل راہ ہیں، مقررین، برسلز میں تعزیتی ریفرنس

May 26, 2022

برسلز( حافظ انیب راشد ) برسلز پریس کلب اور پاکستان پریس کلب بلجیم کی جانب سے ممتاز صحافی خالد حمید فاروقی مرحوم کیلئے ایک مشترکہ تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ پریس کلب برسلز میں منعقد ہونے والے اس تعزیتی ریفرنس کے دوران یورپین صحافیوں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مرحوم کے دوستوں اور چاہنے والوں نے ان کی صحافتی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ شیراز راج کی میزبانی میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی ۔ تقریب کے تین حصے رکھے گئے تھے۔ پہلے حصے میں تلاوت کلام پاک کے ساتھ یورپین صحافیوں اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے ان کے دوستوں نے خالد حمید فاروقی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دوسرے حصے میں ان کے کام اور زندگی کے بارے میں دستاویزی فلم پیش کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان سے ان کے صحافتی اور نظریاتی دوستوں کے ان کے بارے میں بھیجے گئے ویڈیو پیغامات سنائے گئے ۔ جبکہ آخر میں گفتگو کا ایک سیشن رکھا گیا تھا جس میں مرحوم کی اہلیہ، برسلز کے سفارت خانے میں تعینات انفارمیشن افسر، کشمیرکونسل ای یو کے چیئر مین علی رضاسید اور پاکستان پریس کلب بلجیم کے صدر چوہدری عمران ثاقب نے حصہ لیا۔برسلز پریس کلب کی صدر الیا پاپاجورجیو نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے بتایا کہ پریس کلب میں ہمیشہ ان کی خالد حمید سے ملاقات ہوجاتی تھی، وہ اپنے کام سے محبت کرنے کے علاوہ ایک مہذب لیکن شاندار ایکٹیوسٹ بھی تھے۔ مقامی انگریزی میگزین کے ایڈیٹر جی گوریس نے خالد حمید فاروقی کے ساتھ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور خالد حمید دو مختلف خطوں کے لوگ تھے لیکن ہماری سوچ میں یکسانیت تھی۔ میں سائوتھ ایشیا پر کام کر رہا تھا اور وہ دنیا بھر کے مظلوموں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ یہی قدر مشترک ہمارے باہمی رابطے کا ذریعہ بنی رہی۔ اسی دوران خالد کے ذریعے ہی مشرق کے شاعروں سے شناسائی ہوئی۔ اسی شناسائی کے اظہار کے طور پر جی گوریس نے فیض کی نظم ʼبول کے لب آزاد ہیں تیرےکا انگریزی ترجمہ سنایا۔ برطانیہ سے آئے ہوئے خالد حمید کے دوستوں اور نظریاتی ساتھیوں اکرم قائم خانی ، عمر میمن اور حسن عسکری کے علاوہ نیدرلینڈز سے وحید بھٹی نے خالد حمید کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔معروف صحافی اور یورپین افئیرز کی تجربہ کار شخصیت شادا اسلام نے ان کے ساتھ گزرے لمحات بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف ہوکر پاکستان کو بھول جاتیں، لیکن خالد کسی نہ کسی طرح انہیں واپس پاکستان کے مسائل میں گھسیٹ لاتے۔ گویا خالد ان کیلئے پاکستان سے رابطوں کا ایک ذریعہ بن گئے تھے۔ نوجوان زروان غامدی اور کینتھ رائے نے بھی اپنے تجربات شئیر کرتے ہوئے مختلف حوالوں سےان کی انسان دوستی اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے ان کے کردار کا ذکر کیا۔پروگرام کے آخری حصے میں ان کی اہلیہ مادام ایلا نے ان کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کا احوال بیان کیا۔ اس داستان میں جہاں خالد حمید کا اپنے پیشے کو ان سے زیادہ وقت دینے کا ذکر بھی تھا وہیں انہوں نے ان کی اپنے لوگوں اور اپنے ادارے سے والہانہ لگائو کا ذکر بھی کیا۔ علی رضا سید نے خالد حمید فاروقی کے بارے میں کہا کہ وہ دنیا بھر میں پسے ہوئے طبقات کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد کے بھی ایک بڑے حامی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ کشمیر کاز کی پر خلوص حمایت جاری رکھی۔ پاکستان پریس کلب بلجیم کے صدر چوہدری عمران ثاقب نے انہیں صحافتی میدان میں اپنے بعد میں آنے والوں کیلئے مشعل راہ قراردیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی روایت کو زندہ رکھا جائے گا۔ ممتاز دانشور رائو مستجاب احمد نے خالد حمید کے ساتھ نیشنل فیڈریشن میں گزارے ہوئے دور کا احوال سنایا ۔انہوں نے کہا کہ خالد حمید ایک انقلابی شخصیت تھے ۔ وہ ساری زندگی کمزور لوگوں کے حق کی لڑائی ہی لڑتے رہے ۔ سفارت خانہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے انفارمیشن افسردائود احتشام نے کہا کہ انہیں خالد حمید کو جاننے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا لیکن ان سے جب بھی گفتگو ہوئی انہیں بہت پروفیشنل پایا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کے ساتھی ان کے مقاصد کی تکمیل کا مشن جاری رکھیں گے۔ آخر میں پاکستان پریس کلب بلجیم کے جنرل سیکرٹری محمد ندیم بٹ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ ان کے انتقال پر پاکستان سے ان کی بہن ثمر اشتیاق فاروقی، برطانیہ سے سابق ممبران یورپین پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد کریم، شفق محمد اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن راجہ محمد افضل خان کے علاوہ پاکستان سے جن نامور صحافیوں نے اپنے تعزیتی ویڈیو پیغامات بھیجے ، ان میں زاہد حسین، جیو کے ڈائریکٹر نیوز اظہر عباس ، حامد میر ، عامر ضیاء اور ناصر زیدی شامل تھے۔ جبکہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے بھی اپنے ویڈیو پیغام میں خالد حمید فاروقی کو خراج عقیدت پیش کیا۔