پاکستان میں قانونی اصلاحات کی ضرورت

May 26, 2022

تحریر:بیرسٹر امجد ملک.....راچڈیل
پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام تضادات کا شکار ہے، موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر ، کرپشن ، جانبداری، غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے، تاثر یہ بھی ہے کہ گذشتہ برسوں میں بین الاقومی رینکنگ میں عدلیہ کی کارکردگی اور ساکھ انڈیکس میں نیچے آئی ہے،مشکل فیصلے کرنا ہی سیاستدانوں کا کام ہے۔اتحادی بیٹھ کرلسٹ بنائیں، فیصلہ کرکے اٹھیں، کام کرکے دکھا دیں، اکثر جماعتوں کا اتحاد فیصلہ سازی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے،سٹاپ گیپ حکومت کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ دائروں میں گھومے ‘عدالت اگر چاہتی ہے کہ فیصلوں کی عزت ہوتو عوام کے کیسوں پر جلد فیصلے کریں،معنی خیز قانون سازی اور اصلاحات کیلئے تجاویز دیں،سیاسی معاملات سے دور رہیں،ازخود نوٹس ضرور لیں لیکن متعلقہ ہائی کورٹ بھیجیں تاکہ وہ فیصلہ کریں،سپریم کورٹ اپیل سن سکے،انصاف کریں تاکہ تاریخ آپ کے ساتھ انصاف کرسکے ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائیل کے زریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ہے اور ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت اور نچلی سطح پر عدالتی نظام کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے‘سول نظام تو بیٹھتا محسوس ہوتا ہے کیونکہ مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں، ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند نہیں کیا،نظام پے در پے ایک متفقہ سمت کا متلاشی رہا اور آئین ہونے کے باوجود اسکا تحفظ قومی کاز اور مقصد نہ بن سکا، رہی سہی کسر نیب نے پوری کردی۔برطانیہ نے بھی سول نظام میں خرابیوں کو 1995میں ایک سپریم کورٹ کے جج لارڈ ولف کے نام پر ولف ریفارمز کے ذریعے سیدھا کیا۔انہوں نے کیس مینجمنٹ کا نظام متعارف کروایا جس سے ایک کاؤنٹی یا قصبے /ضلعے میں ایک ہی عدالت کے زریعے جدید زرائع کے ساتھ مقدمات کا اندراج اور اخراج شامل تھا۔اس تمام کاروائی کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا خودکار نظام وضع کیا۔ کیس سے پہلے کچھ شرائط لازماً قرار دیں ٹرائیل سے پہلے سمجھوتے کے امکان اور اسکے لئے ایک نظام کو متعارف کیا اور چھوٹے اور درمیانے اور بڑے مقدمات کے لئے گزارشات مرتب کیں اور انصاف کے حصول کے متبادل زرائع کو استعمال کرنے کے لئے (اے ڈی آر ) آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن کا پورا نظام کھڑا کیا۔اس نظام کے زریعے دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت ، سمجھوتہ اور صلح صفائی اور باہم رضامندی سے عدالت جائے بغیر مقدمات کا حل موجود تھا۔ہم ابھی تک ایسی اصلاحات کے پاس سے بھی نہیں گزرے گرچہ ہمارا دیہی پنچائت کا نظام اسی اصول پر کار فرما تھا لیکن ہم نہ اِدھر کے رہے نہ ادھر کے۔کچھ عرصہ سے ہندوستان میں عدالتوں کے ذریعے چھوٹے مقدمات ایک دو پیشیوں میں حل کرنے کا نظام رائج ہے اور رواج پکڑ رہا ہے، برصغیر کے ممالک میں کیسوں کو لمبے عرصے تک لٹکاکرانصاف کی تاخیر انصاف کی نفی یا عدم دستیابی کے مترادف ہے۔2018میں پاکستان میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظرہیں،قانونی ماہرین کے اندازے کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً مہینے نہیں برسوں درکار ہیں اور 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔اعلیٰ عدالتوں میں اس وقت ججوں کی کل تعداد آسامیوں کی نسبت کم ہے۔ زرائع کہتے ہیں کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات کے مطابق اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریباً 2000کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدمات کی ذمہ داری ہو لیکن تنقید کاروں کے مطابق نظام میں اصلاحات اور سمت کی تبدیلی کے بغیرکیا ججز کی تعداد میں اضافہ معاملات زندگی میں بہتری لا سکتا ہے،کیا ججز کی تعداد بڑھانا ایک حل کے طور پر عارضی ہی یا مستقل بنیادوں پر جدید خطوط پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آراستہ امداد لے کر اصلاحات آئینی اور قانونی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں جو کرنا ہوں گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور ہائی کورٹ میں پائلٹ پراجیکٹ کے زریعے اصلاحات متعارف کروائیں لیکن وہ سلسلہ قومی جہت نہ بن سکا۔پاکستان کے فوجداری نظام کو دیکھا جائے تو اس کے بنیادی ڈھانچے میں دائمی خرابیاں سرایت کر چکی ہیں اور مرض دائمی ہے۔پاکستان پارلیمان کی منظوری سے فوجی عدالتوں کے ذریعے ملک دشمنوں کو تہہ تیغ تو کر ہی رہا تھا لیکن یہ انتظام بھی عارضی ہے،ہم ابھی تک دہشت گردوں اور لاپتہ افراد کے لئے مناسب عدالتیں یا نظام وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ طاقتور ممالک کو ہمارے نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا سود مند لگتا ہے،دیمک کی طرح چاٹتی خرابیاں نظام کو مفلوج کر چکی ہیں جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ معیاری ٹرائیل ایک خواب ہی بن گیا ہے اور اسں خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قومی سوچ اور قومی اقدامات درکار ہیں۔عدالتی ٹرائیل کو اگر دیکھیں تو سیاست میں گھسے بغیر پاکستان کی چھوٹی سی تاریخ میں کسی نے انصاف ملنے کی تصدیق نہیں کی۔ 1956 سے 2017تک، جسٹس منیر خان سے اب تک عدالتوں میں لوگ شکایت ہی کرتے رہے کہ مولوی تمیزالدّین کو انصاف نہیں ملا۔نصرت بھٹو، ضیاء کے مارشل لاء پر عدالت عظمی سے انصاف کی بھیک مانگتی رہیں،بھٹو کا ٹرائل عدالتی قتل ٹھہرا اور تو اور بے نظیر کے مقدمے میں اعلی عدالتی ججز کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بغض فائلوں کے اْوپر تیرتا ہوا نظرآیا۔نوازشریف عدالتوں سے نالاں تھے، رہے اور اب تک ہیں، سیاستدانوں کی نظام عدل کی طرف پیش قدمی جاری ہے اور آنے والے الیکشن میں عدالتی اصلاحات تقریباً تمام پارٹیوں کے منشور کا اہم حصہ ہوں گے۔ ایک تو پارٹی ہی انصاف کے لئے بنی تھی،پی سی او ایک مکمل علیحدہ بحث ہے جس کا تدارک جمہوری نظام کی مضبوطی میں پنہاں ہے‘ 1999کے مارشل لا کے نتیجے میں جسٹس سعید الزماں صدیقی کے برعکس درجن بھر ججوں نے ڈکٹیٹر کا حلف لینے میں عافیت سمجھی لیکن کچھ اعلیٰ عدالت کے جج اڑے رہے۔ مرحوم جسٹس سعیدالزماں صدیقی، ناصر اسلم زاہد اور وجیہ الدّین جیسے نامی گرامی ججز اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئے۔جوں جوں سینئر جیورسٹ پی سی او یا اس طرح کے طریقوں سے سائیڈ لائن کئے جاتے ہیں اسی طرح یہ خوف سرایت کر جاتا ہے کہ ان کی باری بھی آسکتی ہے اور ہر دفعہ ہنر تجربے اور خاصیت کو دھچکا لگتا ہے، اٹھارویں ترمیم نے بند باندھنے کی کوشش تو کی لیکن حتمی کامیابی ایک مکمل ڈائیلاگ اور چارٹر آف آئینی عملداری میں پنہاں ہیں۔ظفر علی شاہ کیس میں انصاف کے بر عکس ججوں نے فوجی ڈکٹیٹر کو آئین تبدیل کرنے کا وہ اختیار بھی دے دیا جس کی انھوں نے استدعا بھی نہیں کی تھی‘استغاثہ کے طریقہ کار کو فوری توجہ اور بہتری کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو پولیس سے آزاد ایک ایسے پراسیکیوشن کے محکمے کی ضرورت ہے جس کا اپنا صوبائی اور قومی ڈائریکٹوریٹ ہو، بھرتیوں ، نگرانی اور رہنمائی کا خود مختار نظام ہواور اس میں تربیت یافتہ پیشہ ور وکلاء، بھرتی کئے جائیں جنکا اپنا ایک نظام ہو اور وہ ہر مقدمے کے مرض اور کمزوریوں کا بر وقت جائزہ لیں۔موجودہ نظام انتہائی غیر منّظم ہی اور تفتیش کار اپنی اچھی اور بری تفتیش پر بضد ہوتے ہیں اور استغاثہ اسکا غیر ضروری دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں ریاستی پراسیکیوشن سروس کی ضرورت ہے جو آزادانہ پراسیکیوشن کو یقینی بنائے، فوجداری تحقیقات پر نظر رکھے اور جْرم کے خلاف حقیقی جنگ کو ناقص، غلط اور غیر محفوظ تحقیقاتی طریقہ کار سے علیحدہ رکھے اورایسے کیسز کو آگے لے جائے جن پر فردِ جْرم یقینی بنانے کے ذیادہ سے ذیادہ امکانات ہوں۔ مقننہ انتظامیہ اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو تفتیش سے آزاد پراسیکیوشن سیٹ اپ کی ضرورت کو سمجھنا چاہئیں اور اس کے لئے پالیسی ساز فیصلوں کی اشد ضرورت ہے‘ملکی سلامتی کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں۔ ہم روز جنگ کے دہانے سے مڑ کر آتے ہیں۔ یہ کیمیائی ہتھیاروں اور سائنسی سائبر حملوں کا دور ہے۔اگر کرونا کے دس مریض آپ کے ملک میں داخل ہوجائیں تو وہ ایک چھوٹی جنگ جتنا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے خطرات سے نمٹنا ہی اصل چیلنج ہے۔ایسے میں جدید خطوط پر آراستہ ہونے کی ضرورت ہے۔