تاجدارِ ختمِ نبوتﷺ کی اطاعت و محبت

June 24, 2022

محمد یاسین شیخ

دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسلمانوں کے دل میں آقا ﷺ کی محبت کس قدر پیوست ہے۔ ہمارا تو عقیدہ ہے کہ وہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں جس کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی محبت ہر شے سے زیادہ نہ ہو، بلکہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخصاس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور ہر چیز سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘(حدیث نمبر ۱۵، صحیح بخاری)

یہ بات واضح ہے کہ دشمنان اسلام، آقا ﷺ کی شان میں گستاخی کر کے مسلمانوں میں غم و غصے کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں ، تا کہ مسلمان اس کیفیت میں غلطیاں کریں اور انہیں فائدہ ہو، مگر وہ یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ وہ جو ایک عرصے سے مسلمانوں کا اتحاد ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں بلکہ اکثر اوقات کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، اس حرکت سےاُن کی پوری محنت پر پانی پھر جاتا ہےاور مسلمان پھر متحد ہوجاتے ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ وہ واحد ہستی ہیں جو مسلمانوں میں اتحاد کا سبب ہیں۔

آپ ﷺ کی محبت تمام مسلمانوں کو سب اختلافات بھلاکر ایک کر دیتی ہے۔مجھ خاکسار جیسا ادنیٰ درجے کا مسلمان ہی کیوںنہ ہو، جب آپ ﷺ کی ناموس پر بات آئے تو یہ گوارا نہیں کرتاکہ حضور ﷺ کی ناموس پر حملہ ہو اور خاموش بیٹھا جائے۔ لہٰذا کفار کو اس گھناؤنے کام کا سہارا لینا بند کرنا ہوگا۔

ویسے بھی اس اصول پر پوری دنیا متفق ہےکہ کسی مذہب کے پیشواؤں کی عزت پر حملہ کرنا انتشار اور فساد کا باعث ہے۔ پھر مسلمان تو مذہب کے اعتبار سےدنیا کی دوسری بڑی جماعت ہیں، رسول اللہ ﷺ کی مقدس ذات پر ہاتھ ڈالنا تو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اقوام متحدہ سمیت انسانیت کا دن رات نام لینے والے اس پر بھرپور کاروائی کریں اور یقین دہانی کرائیں کہ آئندہ اس قسم کی حرکات پر عالمی برادری متحرک ہوگی۔

دوسری جانب مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب آقا ﷺ کی ناموس کی خاطر ہم سب ایک ہوسکتے ہیں تو ان کے لائے ہوئےدین کے خاطر ، ان کی سنتوں کی اتباع کے خاطرہم ایک کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہم کیوں ایسا اتحاد ہمیشہ کے لیے قائم نہیں کرلیتے کہ دشمن کی ہم پر آنکھ اٹھانے کی جرأت ہی نہ ہو؟ ہم باہمی اختلافات کو نفرت میں بدلنے سے کیوںنہیں روک سکتے؟ اختلاف رائے رکھنا ہر ایک کا حق ہے ،مگر اس کی آڑ لے کر نفرت کو اجاگر کرنا اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہی بھائی کو دھوکا دینا کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔!خدارا! اس حوالے سے ہم سب کو سوچنا ہوگا ۔

یہاں ایک اور بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہےکہ آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی ملتی ہے کہ کسی کے معبود اور مقدس لوگوں کو برا بھلا نہ کہا جائے، ورنہ جب وہ پلٹ کر حملہ کریں گے تو اس کے ذمہ دار مسلمان ہی ہوں گے۔ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ متشدد مسلمان جو دین اسلام کےحقیقی مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ اپنے قول وفعل کے ذریعےاس قسم کی حرکات کرتے ہیں جس سے دیگر مذاہب کے لوگ جواباً ہمارے مقدسات پر حملہ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہی لوگ اس گستاخی کے مرتکب قرار دیے جائیں گے۔

لہٰذا ایک مسلمان کومن مانی کے بجائے احکامات شرعیہ اور سنت نبویہ کوہر وقت ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے، تاکہ ایسے کام، اسلام کا نام لےکر انجام نہ دیے جائیںجو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہوں۔ اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع نصیب فرمائے ۔ (آمین)