زندگی کی تعبیر سے بندگی کے محاذ تک!

July 05, 2022

تحریر:عبدالمتین اخونزادہ....کوئٹہ
انسانیت کی روحانی و اخلاقی قوتیں بحال کرنے کیلئے مالک ارض و سماء نے بندگی و عبادت کا ایک لامتناہی اور وسیع نظام رکھا ہے جس کی ہمہ وقت فعالیت و دانش مندی کا خیال رکھنا ہوتا ہے، یوں محاورتاً نہیں حقیقی معنوں میں یہ ضروری امر ہے کہ بہترین قربانی آپکے اندر کے جانور کی ہو۔ "جب انسان اپنی مرضی کو چھوڑ کر راضی برضائے الٰہی کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تب مٹی کا پتلا سونے جواہرات سے زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے" یہی روحانی و اخلاقی رویوں کی تشکیل و تعمیر نو کی طرف پہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے ،ہجری سال کے بہت ہی معتبر و مستند اور موثر و دانش مندی سے بھرپور توانائی و فکری غذا رکھنے والے مبارک مہینہ ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی عشرہ ذوالحجہ کا آغاز یعنی اس ماہ مبارکہ کے پہلے 10خوبصورت ترین دنوں کا آغاز ہوا اور برکتیں،رحمتیں سمیٹنے،عبادات میں بے پناہ اجر و ثواب حاصل کرنے اور زندگی کے اسباق کو دہرانے کا ایک اور نادر موقع ہماری زندگیوں میں آ پہنچا ہے یہ لمحہ احتساب،لمحہ فکر اور لمحہ اجر بھی ہے تو آئیے ذرا گزرے دنوں کی بات کرتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل سفر ہے، انسان مرحلہ وار زندگی کے معاملات کو حل کرتا منزلوں پر منزلیں مارتا اخروی زندگی کی دنیا میں جا پہنچتا ہے جہاں اس کی حقیقی کامیابی و کامرانی یا ناکامی و نامرادی کا میزان تیار ہوتا ہے۔اب کامیاب و کامران وہ ہے جس نے اپنے اندر کے جانور کو سدھا لیا یا قربان کر لیا اور ناکام و نامراد وہ ہے جو اپنے آپ کو اپنے نفس کو شیطان کے بہکاوے سے نہ بچا سکا۔کچھ سوال پوچھتے ہیں کہ اس بھرے برس کے دوران کتنی بار اپنی خواہشات کو راہ خدا میں قربان کیا اور کتنی بار ناکامی ہوئی۔کتنی بار شیطان کو کنکریاں مار کر سنت ابراہیمی علیہ السلام کو زندہ کیا اور کتنی بار خود پرستی، انا،غرور،تکبر،ہوس،لالچ اور نفرت کے جانور کے گلے پر چھریاں چلائیں؟ کتنی بار عاجزی درگزر، سخاوت، محبت اور صلہ رحمی سے کام لے کر اپنے اور دوسروں کے معاملات کو سنوارا؟ یہ باتیں صرف زبان کا چسکا نہیں ہیں بلکہ سنت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ علیہ السلام کے ان مکمل افعال کی مکمل پیروی کی طلبگار بھی ہیں اب ہم نے انفرادی زندگی سے نکل کر معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بہتر اور خوبصورت بنانا ہے _ اکیسویں صدی کے اوائل میں تیز رفتار ترقی و خوشحالی اور فرائض و واجبات میں عدم توازن و غیر مادی قوتوں سے دوری نے انسانوں کے عالمی کنبے کو نئے پیراڈیم میں علمی و فکری سوالات کےسامنےلا کھڑا کیا ہے اگرچہ اس برس بھی ہمارے حکومتی معاملات انتہائی بد نظمی،عدم برداشت ،تنائو،بدزبانی اور بداخلاقی کا نمونہ رہےاور پوری دنیا میں بطور قوم ہماری شہرت کو متاثر کرتے رہے، یہ سلسلہ جاری ہے۔اگرچہ یہ دس دن معاملات کو درست کرنے کیلئے بہت کم ہیں کیونکہ جن لوگوں نے رمضان المبارک کے تیس دنوں میں کچھ نہیں سیکھا یہ دس دن ان کا کیابگاڑ لیں گے لیکن بقول اقبال:نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے۔ اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آئیے! ان عظمت والے دنوں کی آئیڈیالوجی کو نئے معنی و مفہوم پہناتے ہوئے آج کے تناظر میں فکر انسانی کو دوبارہ تعمیر کرتے ہیں تاکہ قربانی کا صحیح معنی و مفہوم سمجھ کر اپنی زندگی میں ان قربانیوں کو لے کر آئیں جو ہماری اور ہمارے معاشرے کی زندگیوں کو مثبت اور مکمل بنا دیں یہی نکتہ آغاز ہے دوستو! اور اسی نکتہ اول سے ہم آہنگ ہو کر زندگی کی رواں کہانی اور بنیادی سہولیات و سوالات پر غور وفکر کرتے ہیں ان مبارک دس دنوں میں۔