کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں

July 06, 2022

تحریر:محمد صادق کھوکھر.....لیسٹر
ہمارے اکثر سیاست دان اور اربابِ اختیار ایسی الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں جنہیں سن کر عام آدمی دنگ رہ جاتا ہے اور تعجب سے سوچنے لگتا ہے کہ یہ کیسے غیر سنجیدہ افراد ہیں جو قوم پر مسلط ہو گئے ہیں اور ہماری قسمتوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔ سب سے پہلے محترم وزیرِ اعظم کے فرمودات پر غور فرمائیں۔ وہ فخریہ انداز سے فرماتے ہیں کہ "تاریخ میں پہلی بار صاحب ثروت افراد پر براہ راست ٹیکس موجودہ حکومت نے لگایا ہے، جس سے 200ارب روپے جمع ہونے کی توقع ہے۔" کوئی ان سے پوچھے کہ آخر اس ٹیکس کا نفاذ انہوں نے پہلے کیوں نہیں کیا تھا؟ پہلے بھی تو یہی طبقہ حکمران تھا جو آج ہے۔ پچھلے ادوار میں انہیں ایسا کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی تھی؟ کیا انہیں ملک کے دیوالیہ ہونے کا انتظار تھا؟ حالات کے جبر نے اب انہیں صاحبِ ثروت پر ٹیکس لگانے پر مجبور کیا ہے۔ ورنہ ٹیکسوں کا بوجھ ہمیشہ غریب اور متوسط طبقہ ہی برداشت کرتا چلا آرہا ہے۔ انہیں سابقہ کوتاہی پرغریب عوام سے اظہارِ شرمندگی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ فخر سے اسے تاریخ ساز قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان سے سستا کوئلہ منگوانے کی بھی نوید سنائی ہے۔ ترقی کے نام نہاد علمبرداروں کو شاید علم نہیں کہ دنیا میں کوئلہ کا سب سے بڑا ذخیرہ تو پاکستان میں ہے پھر اسے باہر سے درآمد کرنے کا کیا جواز ہے؟ اس سے بڑی نااہلی اور کیا ہو سکتی ہے؟ سب سے دلچسب بیان ہمارے سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے دیا ہے۔ انہوں نے ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ "قیامِ پاکستان کے بعد ستر برسوں میں جتنا قرضہ لیا گیا تھا اس کا 80 فیصد نہیں بلکہ 76فیصد پی ٹی آئی حکومت نے لیا۔" گویا اسی برسوں کے مجموعی قرضے کا 76فیصد صرف عمران خان دور میں لیا گیا۔ آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ملکی تاریخ کا تین چوتھائی قرضہ لے کر بھی کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دیا جا سکا ۔ اس کے باوجود وزیرِ موصوف ندامت کی بجائے اپنے اس عمل کا دفاع اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا اگر 4فیصد کی کمی نہ رہتی تو ملک اس وقت ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو چکا ہوتا۔ عمران کے اتحادی شیخ رشید احمد فرماتے ہیں کہ ہمیں حکومت کے جانے کا چارماہ قبل ہی پتا چل گیا تھا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی ساری ٹیم بضد ہے کہ ان کی حکومت ایک سازش کے ذریعے گرائی گئی۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی نااہلی ہے کہ سازش کا علم چار ماہ قبل ہی ہو چکا تھا؟ اور اس کے باوجود نیشنل سیکورٹی کمیٹی اور دیگر متعلقہ ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ کیا حکمران سازش کی کامیابی کا انتظار کر رہے تھے؟ کم از کم نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس ہی بلا لیتے اور سازش کے سدِ باب کے لیے کچھ تو کرتے۔ اسے کہتے ہیں نا اہلی جو کھل کرعیاں ہو رہی ہے۔ اب مزید رسوائی کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم بھی عجیب پارٹی ہے یہ ہر حکومت کا حصہ بنتی ہے اور پھر اپنی کارکردگی پر خود ہی خطِ تنسیخ بھی پھیر دیتی ہے بلکہ اپنی کارکردگی پرخود عدمِ اعتماد پاس کرا کر دم لیتی ہے جب یہ جماعت پی ٹی آئی میں شامل تھی تو اس کے وزراء پی ٹی آئی حکومت کی بڑھ چڑھ کر حمایت کیا کرتے تھے۔ حکومت سے ان کی معاونت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ان کے وزیرِ قانون فروغ نسیم حکومت کے دفاع کے لیے باقاعدہ استعفیٰ دے کر عدالتِ عالیہ میں پیش ہو جاتے تھے اور پھر دوبارہ وزارت کا حلف اٹھا لیتے تھے۔ حتیٰ کہ جب عمران حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد پیش ہوئی اس وقت بھی ایم کیو ایم عمران کی حمایتی تھی۔ لیکن پھر یکایک انہیں اپنی حکومت کی کارکردگی خراب نظر آنے لگی اور یہ اپنی ہی حکومت کے خلاف ہو گئے اور اپنی تین سالہ کارکردگی کے خلاف عدمِ اعتماد پاس کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ انہوں نے اپنی کارکردگی کے خلاف ووٹ کیوں دیا؟ صاحبو یہ چند مثالیں ہیں جن سے سیاست دانوں کے پھوہڑپن کا اندازہ ہوتا ہے۔ میری عوام سے درد مندانہ گزارش ہے کہ الیکشن کے وقت آپ بیشک بڑھ چڑھ کر اس پارٹی کا ساتھ دیں جسے بہتر سمجھتے ہوں۔ لیکن عام حالات میں اپنی زندگیاں ان کے دفاع کے لیے برباد نہ کریں بلکہ ان کے غلط اقدامات اور بیانات کو کھل کر ہدفِ تنقید بنائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ مذید بے لگام ہو جائیں گے۔ ان کی بے لگامی کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ یہ نسل در نسل پوری قوم پر مسلط رہتے ہیں۔ اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا۔