علی سفیان آفاقی کے قلم کا ایک شاہ کار فلم ’’نمک حرام‘‘

August 03, 2022

فلم بنارسی ٹھگ کی ملک گیر کام یابی نے اداکار منور ظریف عام مزاحیہ اداکار سے ہیرو بنادیا تھا، خوشیا اور جیرا بلیڈ نے باکس آفس پراُن کی مانگ میں اس قدر اضافہ کردیا کہ وہ پنجابی کے ساتھ اردو فلموں میں بھی ہیرو کاسٹ کیے جانے لگے۔ ان ہی دِنوں فلم ساز مصنف اور ہدایت کار علی سفیان آفاقی نے اپنی ایک نئی فلم ’’نمک حرام‘‘ کے نام سے شروع کی، جس کی کہانی کا مرکزی خیال ان کی ماضی میں لکھی ہوئی ایک فلم ’’میں وہ نہیں‘‘ سے لیا گیا، جس میں اداکار کمال نے ڈبل رول کیا تھا، جب کہ نمک حرام میں منورظریف نے ڈبل رول میں جمیل اور جمال کے کردار ادا کیے تھے۔

علی سُفیان آفاقی، بنیادی طور پر رائٹر اور صحافی تھے۔ مکالمے، منظرنامہ اور کہانی لکھنے کے ماہر آفاقی صاحب نے فلم سازی کا آغاز کیا تو انہیں فلم ’’کنیز‘‘ کی صورت میں کام یابی ملی، بہ طور ہدایت کار، وہ آس اور آبرو جیسی سپرہٹ فلمیں بنا چکے تھے۔ ’’نمک حرام‘‘ کی کہانی سے انہیں بے حد اُمیدیں تھیں، کیوں کہ ماضی میں بننے والی اس کہانی پر مبنی فلم ’’میں وہ نہیں‘‘ کوئی کام یابی حاصل نہ کرپائی تھی۔

اس لیے انہوں نے اس مرتبہ اس کہانی میں کچھ تبدیلیاں کرکے اسے خود ڈائریکٹ کرنےکا فیصلہ کیا، لیکن ان کا یہ تجربہ اس بار بھی ناکام رہا، حالاں کہ فلم کا میوزک اور مزاحیہ مناظر بہت اچھے اور جان دار تھے، پُوری فلم دیکھنے کے بعد عوام یہ فیصلہ نہیں کرپائیں کہ ’’نمک حرام‘‘ کون ہے، کیوں کہ ٹائٹل کے مطابق تو فلم میں نمک حرامی دکھانا چاہیے تھی، مگر اس ٹائٹل کا کہانی سے کوئی لِنک نہ تھا، جو کہ اس فلم کی بہت بڑی کمزوری واقع ہوئی، اس فلم کا نام وہ ’’نمک حرام‘‘ کے بہ جائے ’’نمک حلال‘‘ رکھ لیتے تو شاید کچھ بات بن جاتی، کیوں کہ فلم کے ہیرو منور ظریف کو نمک حلال دکھایا گیا تھا۔

فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ تھا کہ شوکت (علائوالدین) فسادات کے دوران اپنی بیوی (نجمہ محبوب) اور بیٹے جمال (منور ظریف) سے بچھڑ جاتا ہے۔ جمال کا جڑواں بھائی جمیل (منور ظریف) اپنے باپ شوکت کے پاس رہ جاتا ہے، شوکت شہر کے ایک بہت بڑے آدمی تھے، ان کا بیٹا جمیل ولایت سے پڑھ کر اپنے گھر آتا ہے۔ شوکت نے اپنے دوست غفار (قوی)کی بیٹی شازیہ (آسیہ) سے جمیل کا رشتہ طے کیا ہوا ہوتا ہے، جب کہ شوکت کا دوسرا بیٹا جمال اپنی والدہ خالدہ (نجمہ محبوب) کے ساتھ ایک کوارٹر میں غربت کے دن گزار رہا تھا۔ خالدہ نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلانے کے لیے دن رات محنت کی، کالج میں جمال کی ہم جماعت ناہید (نِشو) سے محبت کرتا ہے۔

غربت سے تنگ آکر جمال تعلیم ادھوری چھوڑ کر نوکری کی تلاش میں جاتا ہے۔ ناہید تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک کمپنی جس کا باس خالد سلیم موٹا ہوتاہے، وہاں ملازمت کرتی ہے۔ جمال کے لیے ناہید اپنے باس سے جھوٹ بولتی ہے کہ وہ گریجویٹ ہے، باس اسے ملازمت دے دیتا ہے، مگر جمال اپنی ماں کی نصیحت کےمطابق سچ بولتا ہے، تو باس اسے نکال دیتا ہے۔ جمیل اور شازیہ دونوں کے خیالات ملتے ہیں، شازیہ، جمیل کو بہت پسند کرتی ہے، جمیل لندن چلا جاتا ہے اور ایک اطلاع آتی ہے کہ لندن جانے والی فلائٹ کو حادثہ پیش آگیا، جس سے تمام مسافر ہلاک ہوگئے، یہ خبر سیٹھ شوکت کو غم زدہ کردیتی ہے، شازیہ بھی اُداس ہوجاتی ہے۔

جمال ایک روز ٹرین میں سفر کررہا ہوتا ہے، اس کی ملاقات شازیہ کے باپ قوی سے ہوتی ہے، وہ جمال کو دیکھ کر اسے جمیل کہہ کر پکارتا ہے اور زبردستی اسے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ جمال بار بار کہتا ہے کہ وہ جمیل نہیں۔ جمال ہے!! مگر وہ اسے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ شازیہ جمال کو جمیل کی صورت میں دیکھ کر بے حد خوش ہوتی ہے، سیٹھ شوکت کو جب پتہ چلتا ہے اس کا بیٹا جمیل زندہ ہے، تو گویا اسے نئی زندگی مل جاتی ہے۔

جمال کو جمیل کہنے والے جمال کے سچ کو بالکل ماننے کو تیار نہ تھے۔ ناہید جو سیٹھ شوکت کے ہاں اب ملازمت کررہی تھی، جمال کو دیکھ کر بے حد خوش ہوتی، جمال کو شازیہ کے باپ کی وجہ سے ایک عیش و عشرت کی زندگی مل جاتی ہے، تو وہ ان سے نمک حرامی کے لیے تیار نہ تھا اور وہ ناہید کو بتاتا ہے کہ شازیہ کے والد اس سے اپنی بیٹی سے شادی کرنے والے ہیں، یہ سُن کر ناہید اداس ہوجاتی ہے۔

دوسری جانب جمال کی ماں اس کا پتہ لے کر قوی کے گھر آتی ہے، اپنے بیٹے سے ملتی ہے، قوی ساری حقیقت کو جان کر جمال کو دھکے دے کر نکال دیتا ہے، کیوں کہ اب اسے یقین ہو چلاتھا کہ وہ جمیل نہیں، اس کا ہم شکل ہے۔ سیٹھ شوکت کا بیٹا جمیل، رب کی قدرت سے ہوائی جہاز کے حادثے سے بچ کر جنگلی آدم خور قبیلے کے سردار ساقی کی قید میں ہوتا ہے، وہاں سے نکل کر وہ اپنے ڈیڈی شوکت کے پاس پہنچتا ہے۔ سیٹھ شوکت اور قوی، جب خالدہ، جمال کی والدہ کے گھر جاتا ہے، تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی اور بیٹا جمال زندہ ہیں، وہ ا ن کو لےکرا پنے بنگلے آتا ہے، جمیل کو شازیہ اور جمال کو ناہید مل جاتی ہے، سارا گھر خوش و خرم اپنی خوشیاں مناتا ہے۔

فلم کے دیگر شعبوں میں صدابندی، عمل کیمیائی کا کام قابل تعریف تھا۔ ماضی کی اداکارہ رخشی کے بوتیک فن کاشیا کے ڈریسز بھی بہت اعلی تھے۔ خاص طور پر اداکارہ آسیہ کے ڈریسز پر زیادہ توجہ اور محنت کی گئی، فلم کی موسیقی نثار بزمی نے مرتب کی۔ فلم کے چند گانے اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئے۔