قومی استحکام کی خاطر …

August 12, 2022

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
الیکشن کمیشن کے ایک حالیہ فیصلہ کے نتیجے میں میڈیا میں عمران خان کے حوالے سے جو چیخ و پکار سننے کو مل رہی ہے وہ افسوسناک ہے جس محنت سے یہ کیس آٹھ برس تک چلایا گیا اور جیسا ظاہر کیا گیا یہ نہ ہی کسی فرد کی انفرادی کوشش تھی اور نہ ہی اس سطح پر چند افراد کی کوشش تھی کہ سابق وزیراعظم کو کٹہرے میں لایا جا سکے، تکنیکی تفصیلات میں جائے بغیر یہ کیس بھی بظاہر ایجنسیوں اور مالدار اداروں کے مالی تعاون کے ذریعہ پراسیکیوٹ کیا گیا لیکن مختلف ادوار میں عمران مخالف قوتوں کے تعاون کے باوجود یہ کیس معمولی اکائونٹنگ غلطیوں کے سوا کچھ ثابت نہیں کر سکا ہے، الیکشن کمیشن اپنے اس بہت بڑے ڈرامہ کے بعد صرف شوکاز نوٹس ہی جاری کر سکا ہے جس سے ثابت ہوتا ہےکہ الیکشن کمیشن کو مستقبل میں عدالتوں کے سامنے مشکلات کا سامنا ہوگا، پچھلے کئی برسوں پر پی ٹی آئی چیف کی پھیلی زندگی ’’سٹارڈم‘‘ کی زندگی ہے اور ایسے لوگوں کی زندگی کو دوسرے لوگ ہر جگہ کنٹرول کرتے دکھائی دیتے ہیں جنمیں بینکرز، پی آر پیپل، اکائونٹنٹ اور ذاتی امور کو دیکھنے والے لوگ ہر قدم پر کام کرتے ملتے ہیں، عمران خان کی کرکٹ کی شہرت ان کے ساتھ آج تک جڑی ہوئی ہے اور عمران خان کی طرح مصروف زندگی میں اپنے مشیران پر تمام حوالوں سے اعتماد کرنا نہ اس وقت غیر معمولی اقدام ہوا کرتے تھے اور نہ آج ہیں، شہرت کی بلندیوں پر اپنے آپ کو تھامے رکھنا اگر کردار کی بلند ترین سطح نہیں تو اس کے بہت قریب ہے، اندرون و بیرون ملک لوگ سیاسی جماعتوں کے لٹریچر دیکھ کر اور جماعتوں سے جڑے لوگوں کی ریپوٹیشن دیکھ کر فنڈنگ دیتے ہیں اور یہاں پی ٹی آئی کو فنڈ کرنے والے لوگوں کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور الیکشن کمیشن کوئی بڑی سموکنگ گنز تلاش نہیں کر سکا ہے اور اس طرح کمیشن ماسوائے ایک نرم شوکاز نوٹس کے بغیر کچھ تجویز نہیں کر سکا ہے۔ کتنے اکائونٹس پوشیدہ رکھے گئے ہیں اور کتنے نہیں تمام حکومت کے علم میں آچکے ہیں یہ دونوں پارٹیز کےعلم میں ہے۔ حکومت ان پوشیدہ اکائونٹس تک رسائی کیلئے مختلف اقدامات کر سکتی تھی جو اس نے نہیں کئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پوشیدہ اکائونٹس میں کچھ بھی مفید موجود نہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کا مالی نظام نہ بنیادی سطح پر مستحکم ہے اور نہ ہی بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے۔ ہماری معیشت ماضی میں بھی ہنڈی کے کاروبار کے ذریعہ چلتی رہی ہے اور آئندہ بھی چلتی رہے گی۔ بڑے شہروں میں بڑی انڈسٹریزکے مالی معاملات کی جھاڑ پونچھ کر لی جائے گی، ہماری کیش پر مبنی معیشت میں حوالہ اور دوسری ایشیائی جدتوں کو ہمیشہ اہم مقام حاصل رہے گا اور جس زمانہ میں عمران خان پر الزام لگے ہیں، یہ انڈسٹری اپنے عروج پر تھی اور عمران خان خود اپنے مالی معاملات پر ہر وقت نظر نہیں رکھ پا رہا تھا، وہ کرکٹ اور سیاست دونوں میں پھنسا ہوا تھا اور اکثر الزامات اس وقت جرائم کی لسٹ میں نہ تھے، حکومت جو ایک درجن سے زیادہ جماعتوں کا اتحاد ہے، کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس مخمصہ سے کس طرح نمٹے، ریاست یہ ضرور سمجھتی ہے کہ سیاست پی ٹی آئی چیف کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہے۔ عمران خان کو اداروں اور عدلیہ سے نااہل کروانا اس حکومت کی مشترکہ خواہش تو ہو سکتی ہے مگر اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے کئی دریا عبور کرنے ہوں گے، حکومت اس سلسلہ میں عمران خان پر دو طرفوں سے حملہ کر رہی ہے۔ پہلا روٹ مختلف ریفرنسز ہیں اور دوسرا روٹ پی ٹی حکومتوں میں توڑ پھوڑ شروع کروانا ہے۔ ان ہی دنوں پی ٹی آئی استعفوں کی بنیاد پر ضمنی انتخابات کے اعلانات ایسے اقدامات ہیں جہاں مرکزی حکومت براہ راست ملوث ہو کر عمران خان کےلئے مشکلات پیدا کر رہی ہے،عمران خان کے مقابلہ میں خاموشی سے دوسرے لوگوں کی پرموشن اس سازش کا حصہ ہے جس کے ذریعہ ان کو آئسولیٹ کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے، ریاست پاکستان عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے میں یقیناً دلچسپی نہیں رکھتی، پاکستان میں آئے دن بہتر ہوتی سیاست عمران خان کی وجہ سےہی وجود میں ہے، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود پاکستانی یوتھ کیلئے ایک ایسی شخصیت ہیں جن سے قوم کایہ طبقہ امیدیں لگائے بیٹھا ہے، وہ جیتے یا ہارے لوگوں کی بہت بڑی تعداداس کی ہمنوا رہے گی اور لوگوں کی امیدوں کے ٹوٹنے سے مایوسیاں پیدا ہوتی ہیں اور اہم اداروں کی ذمہ داری ہے کہ امیدیں زندہ رکھی جائیں، ہم 75 برس کے ہو چکے ہیں معیشت گھٹنے ٹیک چکی ہے، حکومت اپنے وقت کی کمزور ترین حاکمیت ہے، وسائل کی انتہائی کمی ہے۔ جب ریاست کمزور ہے تو اسکے نتائج تباہ کن ہوں گے،عمران خان کو باہر کرنے سے ایک بہت بڑا بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے، عمران معمہ سے کس طرح نکلا جائے، حکومت افہام و تفہیم کی خاطر یہ اعلان کرے کہ عمران خان کو قومی سیاست سےباہر کرنا اس کا اول و آخر مدعا نہیں اور ان کے خلاف تمام ریفرنسز واپس لے لئے جائیں، دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت کو اپنی ٹرم پوری کرنے دے۔ حکومتی نااہلی پر تنقید کا حق عمران خان کو بھی میسر رہے اور حکومتی جواب دہی کا حق حکومت کو بھی حاصل رہے۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی اثاثہ جات کا ایک معقول حصہ بحق سرکار ضبط کرلے اور اس سے زیادہ کوئی مطالبہ حکومت نہ کرے اور پی ٹی آئی کے سر سے نااہلی کی تلوار ہٹالی جائے، اگر مفاہمت کا راستہ نہ اپنایاگیا تو ملک مزید بحران میں پھنس کر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا، پی ٹی آئی قیادت کو اس مشکل وقت میں سرجوڑ کر بیٹھنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس قیادت نے کئی کروڑ تنکے اکھٹے کرکے ایک مضبوط سیاسی قوت تیار کی ہے جس کی ملک کو ضرورت ہے اور اس وقت قیادت کو باالخصوص اپنے دفاع میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔