کردار ادا کرنیکی صدارتی خواہش، مثبت تجویز، عملدرآمد ممکن

August 13, 2022

اسلام آباد (تبصرہ/فاروق اقدس) ملک میں معاشی بحران اور سیاسی تنائو کے تناظر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سے بات کرنے کی خواہش کے اظہار کو ایک مثبت پیشرفت قرار دیا جاسکتا ہے ،خاص طور پر انکا یہ کہنا کہ سیاستدانوں کو اپنی انا ختم کرکے ایک میز پر بیٹھنے کی ضرورت ہے، صدر کی اس خواہش کو نقاد، تجزیہ نگار اور سیاسی مبصرین ہوسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی خواہش سے تعبیر کریں اور موجودہ صورتحال میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن پر مسلسل دبائو، حکومتی اقدامات اور اپنی کامیابیوں کے پیش نظر حالات جس رخ پر جارہے ہیں اس قیاس کو بعض حلقے تسلیم بھی کرلیں گے تاہم انکا یہ استفسار درست ہوسکتا ہے کہ اگر وزیراعظم آپکی (صدر مملکت) خواہش کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں تو کیا آپ فریق دوئم کو منا سکتے ہیں، لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دھیمے مزاج کے نرم خو ڈاکٹر عارف علوی جو تحریک انصاف کے متحرک اور بانی رکن ہیں ، انہیں عمران خان کی خاص قربت حاصل رہی ہے اور وہ انکے ایک قابل اعتماد ساتھی بھی سمجھے جاتے ہیں یقیناً اپنی جماعت کے تندخو چیئرمین کے مزاج اور رویوں سے ان سے زیادہ کون آشنا ہوگا صدرکو یقیناً یاد ہوگا کہ حکومت بنانے سے قبل بھی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں انکا سیاسی مخالفین کیساتھ طرز عمل کیا ہوا کرتا تھا اس حوالے سے وہاں کے کچھ واقعات بھی یاد کرائے جاسکتے ہیں لیکن صدرآپکے منصب کا تقاضہ امر مانع ہے پھر جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے قبل ہی آپکے چیئرمین نے اپوزیشن کو چوروں کا ٹولہ کہہ کر مخاطب کرنا شروع کر دیا اور اپوزیشن کے قائدین کا تمسخر اڑانے کا جو سلسلہ انہوں نے اپنے جلسوں اور بالخصوص اسلام آباد میں دھرنے کے موقع پر کنٹینر سے شروع کیا تھا اس سے جن سیاسی نفرتوں نے جنم لیا تھا وہ وزیراعظم بننے کے بعد قائد ایوان کی حیثیت سے بھی آپکے چیئرمین قومی اسمبلی کے ایوان میں لیکر آئے تھے، عمران خان یہ تو درست کہتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم بننے کے بعد پہلے ہی دن سے قومی اسمبلی میں خطاب نہیں کرنے دیاگیا اور اپوزیشن کے ارکان نے انکی تقریر کے دوران ہلڑ بازی ، غیر اخلاقی ریمارکس اور الزامات کی مداخلت سے انہیں بولنے نہیں دیا گیا انکا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ اپوزیشن کے ارکان سے انکی تذلیل کرائی جاتی تھی اور ایوان مین انکی آمد اور روانگی کے موقع پرخاص نعرے لگائے جاتے تھے،صدر آپکی جماعت کے چیئرمین کی یہ تمام باتیں درست ہیں لیکن یقین جانیے میڈیا کے ان نمائندوں پر ہی کیا موقوف جو ڈی چوک پر دھرنا تقریروں کی کوریج کیا کرتے تھے ٹی وی کے ناظرین کی بھی بڑی تعداد اس بات کی گواہ ہے کہ اپوزیشن کے رہنمائوں اور قائدین کیساتھ آپکے چیئرمین کا لسانی تشدد کس انداز میں ہوا کرتا تھا پھر پارلیمنٹ ہائوس کے ایوانوں اور بالخصوص قومی اسمبلی کے اجلاس میں وہ اپنے سیاسی مخالفین کیساتھ کس جارحانہ انداز میں پیش آیا کرتے تھے،قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کی حیثیت سے آپکے چیئرمین نے ایک مرتبہ بھی اس پارلیمانی روایت کا اعادہ نہیں کیا جس میں وزیراعظم قائد ایوان کی حیثیت سے اپوزیشن کی نشستوں پر جاکر اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانے میں پہل کیا کرتا تھا یہی نہیں بلکہ وزیراعظم اپنی نشست پر قدرے ترچھے انداز میں اس زاویئے سے بیٹھتے تھے کہ مبادا اپوزیشن لیڈر سے بصری رابطہ ہی نہ ہوجائے آپکے منصبی تقاضوں کو بروئے کار لانے کے انداز پر اپوزیشن نے تنقید ضرور کی ہے لیکن آپکے حلیم الطبع اور شفیق ہونے پر کوئی دو رائے نہیں ہیں آپ جس منصب پر متمکن ہیں یقیناً یہ بات آپکے علم میں ہوگی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر آپکی جماعت کے چیئرمین سے ایوان میں مفاہمت کی فضا قائم رکھنے قانون سازی کے عمل کو فعال بنانے اور حل طلب مسائل پر گفتگو کرنے کیلئے بار بار اعلانیہ پیشکش بھی کی اور غیر اعلانیہ بھی اس خواہش کا اظہار کیا جسے آپکی جماعت کے چیئرمین نے درخور اعتنا نہ سمجھا، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سیاستدانوں کو اپنی انا ختم کرکے ایک میز پر بیٹھنا ہوگاتو آپکے مزاج آشنا حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپکا اشارہ کس شخصیت کی طرف ہے ظاہر ہے کہ آپکا تنظیمی تقاضا بھی ہے کہ آپ اشاروں کنایوں میں ہی بات کریں اور یقیناً یہ اشارہ جہاں پہنچنا چاہئے تھا یا پھر آپ پہنچانا چاہتے ہونگے وہاں بھی پہنچ گیا ہوگا آپ نے کہا میں شہباز شریف اور عمران خان دونوں میں نفرتیں کم کرنا چاہتا ہوں تو صدر محترم آپ میاں خاندان سے بخوبی واقف ہیں یہ لوگ سیاسی مخالف کو نفرت میں ہرگز نہیں بدلتے لوگ اس حقیقت کو گزشتہ چار دہائیوں سے جانتے ہیں اور آپ نے کہا کہ میں دونوں کو ایک میز پر بیٹھنے کیلئے کہہ تو سکتا ہوں لیکن اکٹھا نہیں کرسکتا تو صدر صاحب اگر آپ چاہیں گے تو یقیناً وزیراعظم کی جانب سے آپکی یہ بات بھی مان لی جائیگی۔