’’گوئٹے‘‘ جرمن شاعر

November 02, 2022

گوئٹے جرمنی کا مایہ ناز شاعر ہے شاعرکہنا اس کی حیثیت کو گھٹانا ہے وہ شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، سائنس دان، سیاست دان، وکیل، سفارت کار، سب ہی کچھ تھا۔ جب برصغیر کے نوجوانوں نے اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان جانا شروع کیا تو ان میں سے کچھ نے گوئٹے کا نام سنا اور اس کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے حضرت علامہ اقبال ؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے لیکن نام لئے بغیر، مرزا غالب پر علامہ کی ایک نظم ہے۔

اس کا ایک مصرع ہے ۔’’تیرا ہمنوا گلشن دیمر میں خوابیدہ ہے ‘‘ اس وقت تک علامہ اقبال انگلستان نہیں گئے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے گوئٹے کو کہاں پڑھا اور اتنے متاثر کیسے ہوئے۔ اس کے بعد جب علامہ ا نگلستان گئے، وہاں سے جرمنی بھی گئے۔ جرمن زبان سیکھی اور گوئٹے کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھا اوراس سے شدید متاثر ہوئے۔

جان وولف گوئٹے اگست 1749ء میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا باپ ایک امیر آدمی تھا۔ اس لئے گوئٹے کی زندگی آرام سے گزری۔ اس کو پڑھنے لکھنے کا خوب موقعہ ملا۔ اس نے ابتداء میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ اوراسےپیشہ بنا لیا ۔گوئٹے کی زندگی میں بڑے اتارچڑھائو آئے۔ چوبیس پچیس سال کی عمر میں اس نے ایک ناول دُرتھرکی داستان غم لکھا… یہ ناول بہت مقبول ہوا۔

چھبیس سال کی عمر میں گوئٹے دیمر آگیا اور وہاں کے نواب کے دربار سے وابستہ ہوگیا ڈیوک کو گوئٹے کی شخصیت بہت پسندآئی۔ اس نے گوئٹے کو وزیر بنا دیا بطور وزیر گوئٹے بہت کامیاب رہا۔ اس نے بڑے عیش و آرام سے زندگی بسر کی ،دس سال بعد گوئٹے اچانک اٹلی چلاگیا۔ وہاں کے ادب کا بغور مطالعہ کیا اور اس سے بہت کچھ اخذ کیا۔

اس دوران اس نے کئی ڈرامے اور ناول بھی لکھے۔ دس سال کے بعد پوہ دیمر واپس آگیا۔ اس وقت تک فرانس میں انقلاب آچکا تھا۔ انقلاب آیا تو انصاف اور مساوات کے نام پر تھا۔ لیکن بہت زیادہ خونریزی بھی ہوئی تھی اس لئے گوئٹے نے انقلاب کی مخالفت میں لکھنا شروع کر دیا ۔1806ء میں گوئٹے نے ایک اَن پڑھ حسینہ سے شادی کرلی۔

وہ اپنے عہد کے دانشوروں سے بے خبر نہیں تھا۔ گوئٹے کی عمر پچاس اور ساٹھ سال کے درمیان تھی۔ اس وقت اس کے دماغ میں ایک خیال پرورش پاتا رہاجسے اس نے ایک ڈرامے کی شکل میں ڈھالا۔ اس کا نام ’’ فائوٹ‘‘ تھا،جو ایک عظیم تصنیف ثابت ہوا اور گوئٹے کا نام امر ہوگیا۔ علامہ اقبال بھی فائوٹ کے بڑے مداح تھے۔

جب گوئٹے کی عمر ستر سال ہوئی تو اس نے حافظ شیرازی کے کلام کا جرمنی ترجمہ پڑھا،تو وہ ان کے کلام کی خوبصورتی سے مسحور ہو گیا اسے ایسے لگا کہ ساری خوبیاں مشرق میں ہیں اور مغرب کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اس نے حافظ کے فارسی دیوان کا جواب لکھا، جسے مشرقی مغربی دیوان کا نام دیا۔ 1831ء میں اس نے فائوٹ کا آخری حصہ لکھا اور 1832ء میں اس کی زندگی کا سفر ختم ہوگیا۔ گوئٹے کا تخلیقی سفر ساری زندگی جاری رہا۔ اس کا مکمل لکھا ہوا کلام140جلدوں پر محیط ہے۔ اس نے سائنس کے موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا۔ دنیا میں شاید ہی اتنا ہمہ جہت کوئی دوسرا دانشور ہو گا۔جب گوئٹے کا انتقال ہوا تو مرزا غالب پینتیس برس کے تھے۔ دونوں نابغے ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبرتھے۔

گوئٹے کے مطالعے ، مشاہدے اور علم و فضل کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ ایرانی شاعری،کلچر اور تاریخ سے شدید متاثر تھا۔ (مرزا غالب بھی کم متاثر نہ تھے) اس نے جناب ِ رسالت مآب ؐ پر ایک نظم نغمہ محمد لکھی ہے۔ جس سے حضور پاکؐ سے عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ یوں تو اس نے ساری زبانوں کا ادب پڑھا۔ عربی، عبرانی، سنسکرت اور چینی لیکن وہ فارسی ادب سے بہت متاثر ہوا۔

عظیم فاتح نپولین گوئٹے کا ہم عصر تھا۔ نپولین کے آخری زمانے میں یورپ میں بڑی سیاسی اور سماجی افراتفری تھی ہرطرف بے یقینی کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ قریہ قریہ بدامنی اور بے اطمینانی کا راج تھا۔

وہ مغرب سے فرار ہوکر مشرق کی فضائوں میں سانس لینے لگا۔ اسے ایسا لگا کہ مشرق میں بڑا سکون ہے۔1812ء میں نپولین نے روس پر حملہ کیا۔ سارا یورپ اُتھل پتھل ہوگیا۔ اسی سال اس نے حافظ کے دیوان کا جرمن ترجمہ پڑھا۔ اس کے جواب میں دیوان ِ شرقی غربی لکھا، جس کا ترجمہ ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔ اس کا نام’’مغنی نامہ‘‘ہے ۔

شمال اور مغرب اور جنوب ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں

بادشاہتیں ٹوٹ رہی ہیں۔ سلطنتیں بکھر رہی ہیں

آئو کہ ہم مشرق کی پاک فضائوں کا رُخ کریں

اور پیران مشرق کی صحبتوں سے فیض یاب ہوں

آئو اور عشق و محبت اور مے و نغمہ کی بدولت

ہم خضر کے چشمہ جیوان سے شباب رفتہ کو از سر نو حاصل کریں۔

راستی کی اس پاکیزہ فضا میں، جہاں انسان کو براہ راست ہدایت آسمانی دنیا کی زبانوں میں حاصل ہوئی۔

اور جہاں انسانوں نے آپس میں ایک دوسرے کے گلے نہیں کاٹے اس پاکیزہ فضا میں… میں نوع انسانی کی ازلی فطرت کا مشاہدہ کرسکوں گا۔

جہاں آبائواجداد کا احترام کیا جاتا ہے۔

جہاں غیروں کے سامنے سر نہیں جھکائے جاتے

جہاں اعتقاد کا دائرہ وسیع ہے

جہاں حرف گفتہ اس لئے اثر رکھتا تھا… کہ وہ صرف گفتہ تھا۔

وہاں میں اپنے لئے بخوشی وہ سب پابندیاں قبول کرلوں گا جو نوجوانوں کو ناپسند ہوتی ہیں۔

میں گڈریوں کے ساتھ رہوں گا ۔ کار روانوں کے ساتھ گھوموں گا۔ پھروں گا۔

نخلستانوں میں تازہ دم ہوا کروں گا…

شالیں، قہوہ اور مُشک بیچوں گا

صحرا بہ صحرا قریہ بہ قریہ گاتا پھروں گا … روز ڈالوں گا۔

ستاروں کو جگانے کے لئے… اور…

قزاقوں کو بھگانے کے لئے

اپنے مرکب کی اونچی پیٹھ پر بیٹھ کر

اے حافظ تو جو میٹھے میٹھے نغمے الاپتا ہے تو

میرے دل کو بڑی تسکین ہوتی ہے۔

……٭٭……٭٭……

میں خدا تعالیٰ کا سب سے زیادہ شکر کس لئے ادا کرتا ہوں۔

اس لئے کہ اس نے ہمار ے مصائب کو… ہمارے علم سے علیحدہ کررکھا ہے۔

اگر مریض کو اپنے مرض کا علم، اسی طرح ہو جائے جیسے طبیب کو ہوتاہے۔تو اس کے لئے خود سے مرنے کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے۔

یہ نادانی نہیں تو اور کیاہےکہ انسان اپنے معاملات میں اپنی ذاتی رائے کو دوسروں پر مسلط کرلے۔

اسلام کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی مرضی کوخدا کی مرضی کے تابع کردیں تو ہم سب یقینا اسلام ہی میں جیتے اوراسلام ہی میں مرتے ہیں۔

غالبؔ اور اقبال ہمارے مایہ ناز شاعر ہیں۔ ہم نے انہیں وہ اہمیت نہیں دی جس کے وہ مستحق ہیں جبکہ شیکسپیئر کو انگلینڈ میں اور گوئٹے کو جرمنی میں پوجا جاتا ہے۔ اہمیت نہ دینے کی ایک بڑی وجہ ہماری غربت اور تعلیمی پسماندگی ہے۔ لوگوں میں عقل اور شعور کی بہت کمی ہے۔

غالب اوراقبال اکیلے ہی نہیں ہمارے اور بھی ہزاروں جینئس ایسے ہیں جو گوشہ گمنامی میں مرجاتے ہیں۔ ایسے دانشوروں کی قبریں فریادی ہیں پرمزار ما غریباں ’’یعنی ہم غریبوں کے مزار پر نہ کوئی چراغ جلانے آتاہے نہ پھول چڑھانے … نہ پروانے آتے ہیں۔ نہ بلبلیں چہکتی ہیں۔ بات بری تو لگے گی ہم ایک وحشی اور بدتمیز قوم ہیں۔ اگر آپ ایک مہینے کے اخبارات سے بے ضمیری، بے حیائی، بے حسی اور بے غیرتی کے … واقعات جمع کرلیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی ایسے میں اگر دانشور اور روشن ضمیر حضرات اپنی بے قدری پر ماتم نہ کریں تو اور کیا کریں۔ ایک عظیم دانشورمتعارف کروانے کی یہ حقیر کوشش ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی