پیپلز پارٹی طاقتور جمہوری آواز

November 30, 2022

تحریر: ابرار میر۔۔۔۔۔ لندن
پاکستان بننے کے بعد حقیقی معنوں میں ایک جمہوری پارٹی کی اشد ضرورت تھی، بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ ختم کردی تھی اور جب جہان فانی سے کوچ کرگئے تو جمہوری و آئینی خلیج بڑھتی گئی، ذوالفقار علی بھٹو نے 1960میں بحیثیت کامرس وزیر حکومت کو خارجہ پالیسی دی جسے مان لیا گیا۔ انہوں نے اس وقت ایٹم بم کی ضرورت پر زور دیا اور پھر وہ وقت آیا کہ اس کی بنیاد انہوں نے خود رکھی۔ سندھ کے ایک گاؤں سے ایک ایسا زہین و فطین نوجوان ملکی امور کی باگ ڈور میں حصہ لینے کے لئے آگے بڑھا کہ جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک زوردار جمہوری آواز بن گیا۔ ایوب آمر کو للکارا اور پھر صرف 15مہینوں میں1967میں ایک ایسی جمہوری پارٹی بنا دی کہ جس کے چرچے نہ صرف ایشیا بلکہ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ہونے لگے۔ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے کہ جو ان سے ملتا یا ان کی باتیں سنتا تو وہ بس ان ہی کا ہوجاتا] پیپلزپارٹی کاقیام لاہور میں ہوا یوں پیپلزپارٹی کے شناختی کارڈ پر اس کا کا ڈومیسائل پنجاب کا، شناختی علامت کشمیر اور پیشہ جمہوری ٹھرا، اس پارٹی نے کوئی زات پات اور رنگ نسل یا مزہبی فرق نہیں رکھا اور پروگریسو جماعت کے طور پر سامنے آئی، عوام نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام کا خطاب دیا اور ایک ایسا شخص کہ جس پر طرح طرح کے مذہبی، سماجی اور سیاسی الزامات لگائے گئے لیکن اس نے کمال مہارت سے ایسے تاریخی کارنامے سر انجام دئیے کہ مخالف بھی مان گیاذوالفقار علی بھٹو کو بنگلہ دیش کے علیحدہ ہونے کا احساس تھا اور اسی لئے انہوں نے ایک ایسا وفاقی، جمہوری اور اسلامی آئین دیا کہ مختلف قومیں اور زبانیں اس میں سما گئیں اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایٹمی طاقت بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیر تھے لیکن جمہوری سوچ کے مالک تھے ، انہوں نے عوامی آئین دیا جب کہ آج کچھ ایسے حالات ہیں کہ عوامی جمہوری آئین کے دشمن ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں اور خود کو تبدیلی کا دعویدار کہتے ہیں، بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کا اصل کارنامہ ایک شکست خوردہ قوم کو پھر سے اکٹھا کرکے ایک سیاسی سوچ دینا کہ جس کی وجہ سے ایک عام شخص کو بھی اتنی عقل، سمجھ بوجھ تھی کہ وہ اپنے حقوق کےلئیے وزیروں اور وڈیروں پر بات کر سکتا تھا۔ سامراج کو شہید بھٹو کی ابھرتی ہوئی ولولہ انگیز قیادت ایک آنکھ نہ بہائی اور پھر انہیں ایک جھوٹے مقدمے کی بھینٹ چڑھا کر پھانسی دے دے گی لیکن تاریخ نے بھٹو کو ایسا زندہ کردیا کہ ایک سے بڑھ کر ایک آمر نے پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کا نام ختم کرنے کے جتن لگائے مگر وہ آمر خود مٹ گئے اور ذوالفقار علی بھٹو کا نام تب و تاب جاودانہ ہوگیا اور پیپلزپارٹی گلی کوچوں محلوں اور جھونپڑیوں میں ایسی رچ بس گئی کہ آج بھی وہ پاکستان میں مظبوط جمہوری آواز ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ نصرت بھٹو نے ضیا جیسے آمر کے سامنے جمہوریت کا علم اٹھایا اور پھر اسی نظرئیے کو آگے بڑھانے کیلئے ایک لڑکی بے نظیر بھٹو میدان میں اتر آئی، کیا عجیب اور حیران کن خوں ہے بھٹو خاندان کا کہ جان ہتھیلی پر رکھ عوام کےلئے حقوق کیلئے بڑے سے بڑے آمر سے ٹکرا جاتا ہے، محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے عوام کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان اور ان کے جمہوری حقوق کےلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے بھٹو اور پیپلزپارٹی کو امر کردیا۔ بی بی شہید کے جانے کے بعد پیپلزپارٹی صدمے میں چلی گئی اور ملک میں خطرناک حالت پیدا ہوئے تو مرد حر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا تاریخی نعرہ لگا کر امن کردیا۔ شہید رانی کا بیٹا اور قائدعوام کا نواسہ بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے عوام کیلئیے میدان میں آکھڑا ہوا۔ نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی پیاری اور دلیر ماں کا غم، نانا کی قربانی اور دو نوجوان ماموں کی شہادتوں کے دکھ کو طاقت بنایا اور پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر کھڑا کردیا۔ وہ بحیثیت وزیر خارجہ بالکل اپنے نانا کی طرح تاریخی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں اور کارکن اپنے لیڈر کیلئے ہمہ وقت دعا گو ہے۔ پیپلزپارٹی کو ہر طرف سے زخمی کیا جاتا ہے اور کارکن کو بھی متنفر اور بد زہن کرنے کی سازشیں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ بھٹو اور بی بی کا مشن پورا کرنے کےلئیے اپنے نوجوان چیئرمین کو وزیراعظم دیکھنے کا خواہاں ہے بلکہ60اور 70کی دہائی کے بزرگ بھی یہی خواب لئے دعائیں کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بانی چیئرمین اور قائدعوام کے نواسے اور شہید رانی کے لخت جگر کو وزیراعظم بنتے دیکھ لیں کیونکہ پاکستان کو ایک نوجوان وزیراعظم کی اسی طرح ضرورت ہے کہ جس طرح شہید بھٹو اور بی بی شہید نے نوجوانی میں ہی وزارت عظمیٰ سنھبالی اور ملک کو آگے لے کر گئیں۔ نئی نسل بھی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے کہ اب پاکستان کا بھلا اسی میں ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ملک و قوم کی ترقی کیلئے آگے آئیں، پیپلزپارٹی ایک خاندان کی حیثیت رکھتی ہے اور اپنا55 واں یوم تاسیس منا رہی ہے اور دنیا بھر میں بھٹو بھٹو ہورہی ہے۔