سندھ میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں

December 06, 2022

پی پی پی کے یوم تاسیس کے جلسے میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سن رہا تھا کہ خیال آیا پی پی پی نے گزشتہ کچھ سال میں میڈیا مینجمنٹ کافی بہتر کرلی ہے لیکن پرنٹ میڈیا میں پی پی پی نہ ہونے کے برابر ہے،پہلے بعض ٹی وی چینلز ان کی تقریرکو چند منٹ نہیں دیتے تھےجبکہ آج پورے پورے جلسے کی لائیو کوریج ہورہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان پر تنقید کی اور بتایا کہ کیسے ان کے والد آصف علی زرداری ، فریال تالپور اور پی پی پی اراکین اسمبلی اور کارکنان کو گرفتار کیا جاتا رہا، یہ سن کرمیں بھی گہری سوچ میں پڑگیا کہ بات تو ٹھیک ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہم روز سنتے تھے پی پی پی کا فلاں کارکن گرفتار ہوگیا اور فلاں کی باری آنے والی ہے، کچھ لوگ گرفتار ہوئے تو پھر ہم نے دیکھا کہ عدالتوں میں جج حضرات نیب سے سوال کرتےتھے کہ فلاں کے خلاف شواہد ہیں تو پیش کرو اور نیب افسران’’ آج کل،آج کل ‘‘ کرتے کئی ماہ گزار دیتے، یہ صرف کسی ایک کیس میں نہ ہوتا تھا ہر دوسرے کیس میں ایسا ہی ہوتا تھا کہ الزام لگایا اور کسی نہ کسی پی پی پی کےوزیر کو بدنام کردیااور پھر خاموشی سے اسے گرفتار بھی کرلیا اور ججز کے سامنے یہ نیب افسران آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے تھے۔ اس کی ایک مثال شرجیل انعام میمن ہیں، ان کے خلاف میڈیا میں غلیظ قسم کی مہم بھی چلائی گئی۔ ہمیں تو یہ بھی بتایا گیا کہ انکے گھر سے اربوں روپے نیب نے برآمد کرلئےہیں پھر آج تک یہ اربوں روپے نیب نے کسی عدالت میں جمع نہیں کروائےاور نہ ان پر کوئی ایسا کیس بنایا گیا لیکن میڈیا میں بعض عناصر پی پی پی وزراء کی کردار کشی کرتے رہے۔ سعید غنی پر جس طرح کے گھٹیا الزامات لگائےگئے وہ بھی ہم نے خود سنےجبکہ آج تک عدالتوں میں ایک الزام بھی ثابت نہیں کیا گیا، سعید غنی، ناصر شاہ وغیرہ سندھ کے چند ایسے وزرا ہیں جن کے دفاتراور گھروں پرصبح 9 سے رات 12 تک ایک جلسے کا سماں ہوتا ہے، لوگ جوق در جوق ان وزرا کے پاس اپنے کام اور مسائل حل کرانے آتے ہیں، سندھ کے دیگر وزرا بھی اپنے دروازے اسی طرح کھول دیں تو عوام کے کافی مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ سندھ کے وزرا کے خلاف بہت کچھ لکھا جاتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تمام وزرا معاشرے میں اپنا امیج بہتر بنانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرتے۔ سندھ کے وزرا پر الزامات لگتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ان کی نااہلی بھی ہے ۔ لیکن جہاں سندھ میں کوئی بہتری نظر آئے اس کو نہ جانے میڈیا کیوں نہیں سراہتا، سندھ حکومت کی کارکردگی سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہے، جس طرح سماجی رابطہ کی ویب سائٹس ٹویٹر اور فیس بک پر روزانہ کی بنیاد پر سندھ حکومت کی ٹیم کے ذریعے ہل چل پیدا کی جارہی ہے وہ قابل ستائش ہے، اب پی پی پی کی کارکردگی پر ٹرینڈز بھی بن رہے ہیں اور ناقدین کو جواب بھی دیا جارہا ہے دوسری جانب محکمہ ٹرانسپورٹ نے کراچی کے شہریوں کے لئے جس طرح کی بہترین بس سروس کا آغاز کیا ہے، اس کا کریڈٹ یقینی طور پر سندھ حکومت کو جاتا ہے،اس بس سروس کو جس خوبی سے سندھ کا محکمہ ٹرانسپورٹ چلارہا ہے اگر اس پرداد نہ دی جائے تو یہ زیادتی ہوگی، پیپلز بس سروس کے نام سے جاری کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں بس سروس کا معیار روز بروز بہتر ہورہا ہے، پڑھے لکھے ڈرائیورز اور عملہ جس احسن طریقے سے کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ کے شہریوں کو سروس فراہم کرر ہےہیں وہ قابل ستائش ہے، پھر سب سے بہترین بات یہ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران ان بسوں میں انسپکشن بھی کرتے نظر آرہے ہیں، مسافروں کا فیڈ بیک لیا جارہا ہے، یہی نہیں بلکہ سندھ حکومت دیگر بڑی عالمی کمپنیوں سے پاکستان میں جدید بسوں کے پلانٹ لگانے کے لئے مذاکرات بھی کررہی ہے، اور اگر یہی رفتار رہی اور پی پی پی کسی نیب گردی کا شکار نہ ہوگئی تو بعید نہیں کہ چند سال میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں سندھ کے شہریوں کی بڑی تعداد جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہوگی۔ اب یہاں آپ کے ذہن میں ایک سوال ضرور آئیگا کہ اتنی دیر کیوں کی مہربانی آتے آتے؟ تو جناب کراچی کی محبت کے نام نہاد دعوے داروں نے یہاں جس طرح کا ماحول 2001ءسے 2015ءتک کر رکھاتھا، ایسے ماحول میں کہ جب لاشیں گررہی ہوں، بھتہ خوری عام ہوتو کون سی کمپنی اپنا سرمایہ لگائے گی ؟ سندھ حکومت سے التماس ہے کہ تمام منصوبوں کی رفتار تیز کی جائے اور صوبائی وزراروزانہ جاری بڑے منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لیں۔