صحت دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی میں صنفی تفریق

January 12, 2023

پچھلی چند دہائیوں میں صحت دیکھ بھال کی خدمات میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود، ہمیں اب بھی ان شعبوں میں تحقیق اور علاج کی صلاحیتوں میں وسیع خلاء کا سامنا ہے جو خواتین کے لیے مخصوص ہیں، جیسے کہ زچگی اور ماہواری کی صحت، نیز ایسے حالات جو مَردوں کے مقابلے خواتین میں مختلف ہیں۔

یہ فرق صحت کے بڑے مسائل اور علاج میں تفریق کا باعث بن سکتے ہیں جنھیں بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، امریکا میں شعبہ صحت کے ذمہ دار اداے سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ امریکا میں حمل سے متعلق پانچ میں سے چار اموات کو روکا جا سکتا ہے اور سفید فام خواتین کے مقابلے سیاہ فام خواتین کے دورانِ حمل موت کا امکان تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

شعبہ صحت میں صنفی عدم مساوات

صنفی بنیاد پر صحت کی سہولیات تک رسائی میں فرق کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ صحت کی دیکھ بھال میں صنفی تفریق نے حالیہ برسوں میں بہت سی سرخیاں بنائی ہیں۔ 2016ء میں،عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا کہ اگرچہ یورپی یونین میں خواتین، مَردوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی عمر پاتی ہیں، لیکن وہ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ خراب صحت میں گزارتی ہیں۔ اگرچہ ان نتائج نے اس وقت کافی توجہ حاصل کی، لیکن اس کے باوجود یہ تحقیق خواتین کی صحت کو ترجیح دینے کے لیے ایک اہم مادی تبدیلی لانےکے لیے درکار رفتار کو بڑھانے میں ناکام رہی۔

اس صورتِ حال میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کی صحت کے مسائل کی روک تھام تاریخی طور پر ایک عمومی اور مستقل ترجیح رہنے کے بجائے، وقتی توجہ اور لائحہ عمل تک محدود رہی ہے۔ یہ کووِڈ-19وبائی مرض کے دوران واضح ہو گیا تھا، کیونکہ اس نے اہم تفریق کو مزید بڑھا دیا اور صحت کی دیکھ بھال کی پالیسیوں اور نظاموں میں موجود اس اہم خلاء کو بے نقاب کیا۔

پچھلے دو سال میں، ہماری کمزور آبادی خاص کر خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ زچگی کی صحت کی بات کریں تو بہت سی حاملہ مائیں نقل و حمل کی سہولیات کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے معالج یا مڈوائف کے پاس باقاعدگی سے چیک اَپ کے لیے نہیں جا سکیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کی خدمات حاصل کرنا بھی مشکل رہا۔ اور، کچھ ممالک میں، زچگی کی صحت کی اہمیت سے بے خبری نے مسائل کو اور پیچیدہ بنایا۔

خواتین کی صحت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی اور پہچان، وبائی مرض کے تناظر میں مسلسل بڑھ رہی ہے، جو ہمیں صحت کی دیکھ بھال میں صنفی عدم مساوات کو منظم طریقے سے دور کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ اہم موقع فراہم کرتی ہے۔

صحت کی سہولیات میں تفریق ختم کرنا

خواتین کو صحت کی سہولیات کی فراہمی میں تفریق ختم کرنے کے حل انقلابی نہیں ہیں۔ پیش رفت میں سست روی کی وجہ زیادہ تر فنڈنگ کی کمی اور اس کے نتیجے میں خواتین کی صحت کے مسائل پر طبی تحقیق اور ڈیٹا کی عدم دستیابی کے گرد مرکوز ہے۔ تاریخی طور پر، طبی اعداد و شمار اور نتائج صرف مردانہ جانچ اور آزمائشوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہو سکتی ہے کہ کلینکل اسٹڈیز میں خواتین شرکاء کو شامل کرنا صرف 1980ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا تھا اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے رہنما خطوط کے مطابق صرف 1993ء میں امریکا میں اسے لازمی قرار دیا گیا تھا۔

طب میں یہ صنفی تعصب خواتین کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ ان کے جسم کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں اس کی تفہیم میں کافی فرق ہے۔ آج30سال بعد بھی، ترازو عدم توازن کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر، جیسا کہ ہارورڈ ہیلتھ میں بتایا گیا ہے، دائمی درد کے حالات سے متاثر ہونے والوں میں70 فی صد خواتین ہیں، جب کہ درد کی تحقیق میں 80فی صد نمونہ مَردوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دیگر مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ وسائل اکثر ان بیماریوں کے لیے غیر متناسب طور پر مختص کیے جاتے ہیں جو بنیادی طور پر مَردوں کو متاثر کرتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کا تفریق ختم کرنا

ڈیجیٹل سلوشنز اور کنزیومر ٹیک کا عروج خاص طور پر زچگی کی صحت کی حمایت میں حوصلہ افزا پیشرفت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دنیا کی کئی مایہ ناز کمپنیاں دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کی صحت کے نتائج بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زچگی اور گائنی سے لے کر کارڈیالوجی اور کینسر کی دیکھ بھال تک، صنفی صحت کے فرق کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

گھر میں دور دراز سے جنین کی نگرانی، کم لاگت الٹراساؤنڈز اور ایپس جو چلتے پھرتے بلڈ پریشر کی پیمائش تک رسائی فراہم کرتی ہیں، خطرے سے دوچار حمل کے لیے انقلابی تبدیلیاں ثابت ہوسکتی ہیں اور یہ صحت دیکھ بھال خدمات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے دنیا بھر کے طبی ماہرین اور کمیونٹیز کو بااختیار بنا رہی ہیں۔

نجی شعبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پالیسی سازوں کے ساتھ مل کر فنڈنگ میں اضافہ کرے اور مزید کلینکل اسٹڈیز کو یقینی بنائے جن میں خواتین بھی شامل ہوں۔ ہمیں اپنے سائنسی مطالعات اور معاون ٹیکنالوجی میں صنفی تعصب پر بھی کڑی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ واقعی خواتین کے لیے جامع نتائج حاصل کر رہے ہیں۔ افراد اور اداروں کے طور پر، ہمیں وبائی مرض کے بعد کے دور میں صنفی صحت کی مساوات کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔