جھمیلوں میں گھرا پاکستان

January 27, 2023

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
جس انداز میں حکومت وقت نے آئی ایم ایف کی شرائط کےسامنے گٹھنے ٹیک دیئے ہیں۔ وہ ایک ایٹمی قوت کیلئے افسوسناک قدم ہے، 77رکنی کابینہ کا یہ کارنامہ تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھا جائے گا اورمورخ کو اس فیصلے کے تانےبانے ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف نے خود ہی اس فیصلہ کے ذمہ داران کا تعین کر دیا ہے، بقول ان کے آج کے مشکل مالی حالات کی ذمہ دار ماضی کی تمام حکومتیں بشمول فوجی ادوار ہیں،وزیراعظم کی صاف گوئی کیلئے ان کی تعریف کی جانی چاہئے ورنہ آج کل پاکستان کے تمام مسائل کی ذمہ داری اکیلے عمران خان پر ڈال دینا معمول کارویہ ہے، وزیراعظم کی فراخدلی اپنی جگہ دوسری طرف PTI چیف آئے دن اپنے کئی غیر سنجیدہ فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کے اندر اور باہر اپنا مقام کھو رہے ہیں، عمران خان کے پچھلے آٹھ ماہ میں ہوئے کئی اہم فیصلے الٹے پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی طرز حکمرانی پرسوال اٹھ رہے ہیں۔ PTI چیف دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں جو وہ موقع محل کی مناسبتوں سے اپنے بیانیہ سےجوڑ کر اکثر موضوعات پر موثر گفتگو کر لیتے ہیں،کرکٹ میں جو انہوں نےنام کمایاان کے بقول خود پلے بوائے امیج نے ان کو جو شہرت دی اور پاکستانی سیاست میں ایک تیسری قوت کی ضرورت وہ محرکات ہیں جو عمران خان کو آج کی بلندیوں پر لے آئے، قاتلانہ حملہ میں ان کاگھر بیٹھ جانا ایک مجبوری ہے جس سے ان کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے جس کواللہ رکھے اسے کون چکھے۔ عمران خان کی طرز حکمرانی میں ساتھیوں سے صلاح مشورے کے پہلو ہرگز نظر نہیں آتے،جماعت کے اندر ان کی پوزیشن ایک حکمراں کی ہے جہاں کسی دوسرے کی آواز زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، ورنہ نہ ہی پنجاب اسمبلی ٹوٹ سکتی تھی اور اس طرح غالباً کے پی اسمبلی بھی بچ جاتی، دونوں اسمبلیاں توڑ کر عمران خان اپنے دوطاقت کے مرکز سے محروم ہوگئے اور ان کا یہ پروگرام کے وہ ان دونوں صوبوں میں اکثریت لے کر واپس آجائیں گے حالات کے بوجھ تلے دب گیا ہے، اس میں شک نہیں کہ عمران خان روز اول سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت انتخابات کی تاریخ دے مگر وہ اس معاملہ پر بات تک نہیں کرناچاہتے کیونکہ ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس اسمبلی کی مدت کو جتنا ممکن ہو سکے طول دیا جائے، اسی لئے وہ اس مسئلہ پر خاموش ہیں، میڈیا پر حکومتی ترجمان آج کل اسمبلی کی مدت بڑھانے کا تذکرہ بانگ دہل کر رہے ہیں کیونکہ ان کا پہلا منصوبہ کے تمام کیسز ختم کروالئے جائیں ، من پسند تقرریاں کروا دی جائیں اور 10 بلین ڈالر امداد کا بیشتر حصہ اپنے ہاتھوں تقسیم کر دیا جائے، ابھی مکمل نہیں ہوا، اسے مکمل ہونے میں کم و بیش دو سال کا عرصہ درکار ہے۔ دوسرا منصوبہ بلاول اور مریم کی مزیدترقی ہے دونوں وزیراعظم کے امیدوار ہیں، اس لئے ان کو زیادہ سےزیادہ شہرت دلوانی منصوبہ کا حصہ ہے، اس طرح حکومتی پروٹوکول میں جتنا وقت گزرے یہ دونوں امیدوار بھی پسند کریں گے اور ان کے والد بھی، یہ حکومت اپنے آپ کو عوامی سمجھتی ہے کیونہ 14سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ ہیں۔ ان کے نزدیک سلیکٹڈ ٹیم کاحصہ ہونا انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آنے کے مترادف ہے، چاروں طرف سے گھری PTI کیلئے اپنے آپ کو باوقار انداز میں قائم رکھنا نہ صرف ایک چیلنج ہے بلکہ جماعت کے قائد کیلئے بہت بڑا امتحان ہے اور یہ امتحان کوئی چھوٹی موٹی آزمائش نہیں، جماعت کے قائد کو نااہلی کے مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے کچھ کیس تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، ریاستی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے متواتر عہدے تقسیم کئے جا رہے ہیں، کوئی ادارہ آنکھ اٹھا کر ایسی بے راہ روی کو روکنے کیلئے آگے نہیں آرہا، ایسا لگ رہا ہے کہ مال مفت سےجتنا چاہے حکومتی لاڈلوں میں بانٹ دیا جائے کیونکہ اس ٹیم کو ساڑھے تین سال اقتدار سے باہر رہنے کا بے حد افسوس ہے اور کمزور حکومت کے دوران جس کا بس چلتا ہے ہر کوئی اپنا حصہ اٹھا رہا ہے، ملکی سرمایہ ہماری آنکھوں کے سامنے بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہے اور بڑے عہدوں والے طاقتور قوتیں خاموش ہیں، ان مشکل حالات میں PTI کیلئے ملکی مفاد کے تحفظ کی خاطر مسلسل آواز بلند کرتے رہنا جہاں مشکل ہے وہاں ملک کے تمام کونوں سے احتجاجی آواز بلند ہوتی رہنی چاہئے، حکومت میں شریک پیپلز پارٹی وہ جماعت تھی جو ماضی میں ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے جس کے نتیجہ میں اسے کئی برس اقتدار سے باہررہنا پڑا جب بھی مارشل لا لگے پیپلزپارٹی نے احتجاج کئے اور جمہوریت کی خاطر مشکلات سے ٹکراتی رہی، آج پاکستان میں ایسا طرز حکومت ہے جسے SEUDO جمہوریت کہنا چاہئے۔ یقیناً اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے بغیر نہ یہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی قومی وسائل پر اس طرح شب خون مارنے کا سوچا جا سکتا ہے، اکثر لوگوں کی یہ رائے کہ ملک اس وقت چوراہے پر کھڑا ہے اور ملک کے اکثر حصے بے ہنگم انداز میں چل رہے ہیں، عمران خان ایک باجرات سیاستدان ہیں ،ملک جتنا مشکل میں ڈوبا جا رہا ہے ان مشکل حالات میں لیڈر شپ مہیا کرنی اتناہی کھٹن کام ہے مگر کسی نہ کسی کو یہ قومی فریضہ ادا کرنا ہے۔ توقع ہے خان جلد صحت یاب ہوکرعوام کے درمیان پہنچ جائیں گے،انہیں جماعت کے اندرمعاملات پرزیادہ مباحثہ کا کلچر فروغ دینا چاہئےتاکہ قابل عمل فیصلے سامنے آسکیں، انتخابات اکتوبر23سے پہلے یقینی طورپرنہیں ہوں گے۔ PTI اس ایشو پر کروڑوں روپے اور انسانی انرجی کی بے مثال تعداد ضائع کر چکی ہے، اس جماعت کاٹارگٹ ایسا ماحول بنا دینا ہے تاکہ حکومت اپنے من پسند منصوبوں پر عمل کی خاطر انتخابات میں دیرنہ کر سکے اور انتخابات اکتوبر 2023کے اردگرد منعقد ہو جائیں اور یہی خواہش اکثریت عوام کی بھی ہے اگر حکومت انتخابات کو اکتوبر سے آگے لے جانا چاہتی ہے توملک کے اندر مہنگائی اور دیگربحرانوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے درمیان لایا جائے اور PTI قیادت کو حکومتی نااہلیوں اور انتقامی کارروائیوں کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنا چاہئے۔ اگرچہ سیلاب کے مسائل اب پرانے ہو چکے ہیں مگر متوقع وسائل کی تقسیم کے حوالہ سے حکومتی حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آئی۔ سندھ، پنجاب اوربلوچستان میں جماعت کو تقسیم کے عمل کی بھرپور نگرانی کرنی چاہئے، جماعت کیلئےاگرپچھلے چھ ماہ مشکل تھے تو آنے والا وقت بھی آسان نہیں ہوگا جس میں روایتی سیاست کے ذریعہ لوگوں کے د ل اور دماغ جیتنے ہوں گے۔