جو بویا وہ کاٹا: کیسے متضاد پالیسیز نے TTP کو پاکستان میں قدم جمانے کا موقع دیا

January 31, 2023

کراچی(رپورٹ: عروسہ جدون) گزشتہ روز پشاور میں دہشتگردی کے ایک بڑے واقعے نے پورے ملک میں ایک بار پھر دہشتگردی کے بڑھتےرجحان کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے اعلانات اور ریاستی دعوے ایک بار پھر کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تین سال سے دہشتگردی کے ٹرینڈ میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

گزشتہ سال 2022میں 2021کے مقابلے میں دہشتگردی کے واقعات میں 28فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال 2017 کے بعد پہلی مرتبہ ایک ہی سال میں 300 سے زائد دہشتگردی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے جس پر سیکیورٹی ماہرین بھی اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ رواں سال دہشتگردی کے واقعات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جہاں ملک کو سیاسی اور معاشی محاذ پر پہلے ہی کئی چیلنجز کاسامنا ہے۔ اور اس ساری صورتحال میں دہشتگردی تک کے معاملے پر ملک میں سیاست کی جارہی ہے جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کا ماننا ہے کہ اُن کی حکومت تو کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تحت اُن کی ری سیٹلمنٹ کروانا چاہتی تھی

لیکن موجودہ حکومت اور نئی اسٹیبلشمنٹ نے اس پر توجہ نہیں دی اس لئے دہشتگردی کی لہر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جبکہ موجودہ حکومت سابق حکومت پر ملک میں دہشتگردی امپورٹ کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ لیکن در حقیقت اس پورے معاملے کا ایک پس منظر ہے۔ افغان جنگ کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا۔

جنرل مشرف کے دور میں2008 تک ، دہشتگردی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اُس کے بعد بھی مذاکرات ہوئے، آپریشز ہوئے مگر 2013 تک بھی ملک کو دہشتگردی کا سامنا رہا۔