بابراعظم کو کپتانی سے ہٹانے کی مہم کے پیچھے کون؟

January 31, 2023

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک نے گذشتہ دنوں ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ انگلش کرکٹ ٹیم پاکستان میں ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سیریز جیت کر گئی تھی لیکن انگلش ٹیم کی اکثر فتوحات میں ایسے کھلاڑی شامل تھے جن کا عالمی رینکنگ میں نام نظر نہیں آتا۔ شعیب ملک جب سے پاکستان ٹیم سے ڈراپ ہوئے ہیں ان کا رویہ خاصا جارحانہ ہے اور وہ کھل کر بابر اعظم اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔

محمد حفیظ، محمد عامر کے بعد ا ب وہاب ریاض بھی سلیکشن کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ محمد وسیم جب چیف سلیکٹر بنے تو ان کے دور میں سرفراز احمد،وہاب ریاض اور ان جیسے کئی کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ شعیب ملک ،اعظم خان دنیا بھر کی لیگز میں کارکردگی دکھا رہے ہیں لیکن ان کی پاکستان ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ معین خان کا بیٹا پاکستان میں میرٹ کی تلاش میں ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان معین خان کے بیٹے اعظم خان اچھی کارکردگی کے باوجود موقع کے منتظر ہیں۔ وہ دنیا بھرکی لیگز میں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

چند دن پہلےسوشل میڈیا پر اعظم خان کی جانب سے شیئر کی گئی ایک تصویر میں پرچی ، سفارشی، آلو، موٹا، عزت، سست اور پہلوان جیسے نام لکھے ہیں جبکہ دوسری تصویر میں لکھا ہے کہ ایک کھلاڑی جو سپر فٹ ہے اور 400 رنز بناتا ہے اور دوسرا جو سپر فٹ نہیں ہے اور 800 رنز اسکور کرتا ہے تو میں اپنی ٹیم میں اس کا انتخاب کروں گا جس نے 800 رنز بنائے ہیں۔ اپنی انسٹا پوسٹ میں لکھا کہ روز سوشل میڈیا پر نئے منفی تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، میں جس کھیل کو پسند کرتا ہوں اس کو کھیلتا رہوں۔

ہر روز خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ بہترین کرکٹر بن سکوں۔24سالہ اعظم خان نے پاکستان کی جانب سے تین ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل کھیلے ہیں۔2021 میں انہیں پاکستان ٹیم میں ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے لئے منتخب کیا گیا تھا لیکن بعد میں وہ ٹیم کے ساتھ سفر نہ کرسکے۔ ایک ہفتہ قبل انہوں نے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں109ناٹ آوٹ رنز بنائے تھے۔ اعظم خان پاکستان سپر لیگ میں اسلام آباد کی جانب سے ایکشن میں دکھائی دیں گے۔ٹیسٹ فاسٹ بولر وہاب ریاض نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ رمیز بھائی کے پاس سلیکشن کی حتمی اتھارٹی تھی، چیف سلیکٹر کو ہمارے ساتھ بات چیت کرنی چا ہئے تھی لیکن ہمارے کلچر میں، آپ صرف ان لوگوں سے بات کرتے ہیں جو آپ سے متفق ہوں، آپ ان لوگوں کے ساتھ بات چیت نہیں کرتے جو اپنے مؤقف کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔

تعصب کی کوئی حد ہونی چاہیے، کھلاڑیوں کو عمر رسیدہ کہہ کر ایک طرف کرنا درست نہیں، اگر عمر اہم ہے تو اصول سب کے لیے یکساں ہونے چاہئیں مجھے امید ہے نجم سیٹھی میرے، سرفراز، حفیظ، شعیب ملک اور حسن علی جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ انصاف کریں گے جنہوں نے پاکستان کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان کرکٹ میں جب سے تنخواہ دار سلیکٹر متعارف کرائے گئے اس وقت سے انہوں نے سلیکشن کو پی سی بی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور کھلاڑی انصاف کے حصول میں پریشان ہیں۔ پاکستان ٹیم کی کارکردگی مسلسل خراب ہے لیکن عالمی رینکنگ اور ایوارڈز میں پاکستانی کھلاڑی نمایاں نظر آتے ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں نام کپتان بابر اعظم کا ہے۔اکستان میں کچھ عرصے سے کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی قیادت نہ صرف زیر بحث ہے بلکہ انھیں چند حلقوں کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم گذشتہ چند دن کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سالانہ ایوارڈز میں جو نام سب سے ابھر کر سامنے آیا ہے وہ بابر اعظم کا ہی ہے۔ پہلے آئی سی سی نے انھیں 2022 کی ون ڈے ٹیم کی کپتانی سونپی تو جمعرات کو پہلے وہ ون ڈے کرکٹ میں سال کے بہترن کرکٹر اور پھر سب سے بڑے ایوارڈ یعنی تمام فارمیٹس میں مجموعی طور پر بہترین کھلاڑی یعنی آئی سی سی کے کرکٹر آف دی ایئر کے حقدار قرار دے دیے گئے۔

بابر ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر کا اعزاز جیتنے والے واحد پاکستانی کرکٹر ہیں جبکہ یہ لگاتار دوسرا سال ہے کہ کسی پاکستانی کھلاڑی نے آئی سی سی کرکٹر آف دی ایئر کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ گذشتہ برس یہ اعزاز فاسٹ بولر شاہین آفریدی کے حصے میں آیا تھا۔ آئی سی سی کے مطابق 2022 میں بابر واحد بیٹر تھے جنھوں نے تمام فارمیٹس میں دو ہزار سے زیادہ رنز بنائے اور کیلینڈر ایئر میں ان کی سنچریوں کی تعداد آٹھ جبکہ نصف سنچریوں کی تعداد 17 رہی ہے۔با براعظم شائد اس لئے بھی تنقید کی زد میں ہیں کہ وہ تینوں فارمیٹس میں کپتانی کرتے ہیں۔

آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کو چھ میں چار ہوم ٹیسٹ میچوں میں شکست ہوئی۔نیوزی لینڈ کے خلاف بھی پاکستان ٹیسٹ ہارتے ہارتے ڈرا کرانے میں کامیاب ہوا۔انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش ہونے پر بابر اعظم کی کپتانی پر اس قدر تنقید ہوئی کہ اس تنقید کے بعد پاکستان ٹیم کےا سٹار بولرز شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف دونوں سوشل میڈیا پر کھل کر بابر اعظم کی حمایت میں سامنے آ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سوچنا بھی منع ہے کی مہم چل گئی۔

شاہین شاہ آفریدی نے ٹویٹ کیا کہ ’بابراعظم ہماری اور پاکستان کی شان جان اور پہچان ہے۔ ہمارا کپتان ہے اور رہے گا ۔ کچھ اور سوچنا بھی منع ہے۔ اس ٹیم کو سپورٹ کریں یہی ٹیم ہمیں جتائے گی بھی۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔فاسٹ بولر حارث رؤف بھی اس معاملے میں پیچھے نہ رہے۔ اس صورت حال کو کچھ حلقوں نے پلیئرز پاور اور ایک طرح کی یونین بازی کے طور پر دیکھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس معاملے کا فوری نوٹس لیا اور بورڈ کی مینیجمنٹ کمیٹی کے سینیئر رکن شکیل شیخ نے ان کرکٹرز کو ٹوئٹر پر ہی جواب دے ڈالا کہ جو بھی اس ہیش ٹیگ ’سوچنا بھی منع ہے‘ مہم کو ا سپانسر کر رہا ہے، اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اسے بند کردے ورنہ پھر ہم سوچیں گے۔

بابر اعظم نے 66 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی ہے جن میں سے 40 میچ جیتے ہیں یعنی جیت کا تناسب 65 فیصد ہے۔ ان کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل، ایک سیمی فائنل اور ایشیا کپ کا فائنل کھیلی ہے جبکہ نیوزی لینڈ میں وہ سہ فریقی سیریز جیت چکی ہے۔وہ اب تک 21 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کرچکے ہیں جن میں سے 13 میچ جیتے ہیں یعنی 64 فیصد کامیابیاں۔18ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کرتے ہوئے وہ آٹھ میچ جیتے ہیں جبکہ چھ میں انہیں شکست ہوئی ہے اور چار میچ ڈرا ہوئے ہیں۔

اس وقت بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کے لئے مہم زور وں پر ہے۔پی ایس ایل کے بعداپریل مئی میں نیوزی لینڈ نے پانچ ون ڈے اور پانچ ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میچ کھیلنا ہیں۔ بابر اعظم کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ پاکستانی ٹیم کی اگلی ٹیسٹ سیریز جولائی 2023 میں سری لنکا کے خلاف ہے لیکن اصل امتحان بھارت میں ہونے والا پچاس اوورز کا ورلڈ کپ ہے۔اس سے قبل پاکستان کو پچاس اوورز کے ایشیا کپ کی میزبانی کرنا ہے۔

پی سی بی میں نجم سیٹھی کی قیادت میں نئی انتظامیہ نے چارج سنبھال کر ہارون رشید کو چیف سلیکٹر بنایا ہے۔ہارون رشید نیوزی لینڈ کی سیریز میں شاہدآفریدی کے ساتھ سلیکشن کمیٹی کا حصہ تھے۔ ون ڈے سیریز میں یہ تاثر ملا کہ بابر اعظم کے اختیارات کو کم کیا جارہا ہے۔ اب بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کی مہم میں یہ چیز بھی دیکھنا ہوگی کہ کہیں ہم کپتانی کو بہتر بنانے کے چکر میں اپنا سب سے بہترین بیٹسمین کو ضائع نہ کردیں۔ اس لئے جو بھی فیصلہ کرنا ہے اس حقائق سامنے رکھ کر سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔