عبادات میں ’’سنن و نوافل‘‘ کی اہمیت

February 03, 2023

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

فرائض کے بارے میں تو ہر مسلمان آگاہ ہے کہ دن رات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور یہ پانچ نمازیں اسلام کااولین رکن ہیں، یہ بات بھی ہر مسلمان کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب نبی کریم ﷺکو اس امت کے لیے پچاس نمازیں عطافرمائی تھیں، پھر ان میں تخفیف ہوتی رہی، یہاں تک کہ پانچ باقی رہ گئیں، ساتھ ہی یہ ارشاد ہوا ’’آپﷺ کے لیے اور آپﷺ کی امت کے لیے یہ عمل کے اعتبار سے پانچ نمازیں ہیں ،البتہ ان کی ادائیگی پر ثواب پچاس نمازوں کا ہی ملے گا‘‘ یہ اللہ کی خصوصی رحمت ہے، اس امت کے لیے۔

ساتھ ہی رسول اللہ ﷺنے ان نمازوں کو انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بھی قرار دیا ہے ،ایک حدیث میں ارشاد فرمایا : پانچ نمازیں اسی طرح ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کی نماز اس درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہیں ،جب تک کہ مسلمان گناہ ِکبیرہ کا ارتکاب نہ کرے، یعنی نمازوں کی ادائیگی سے ہی اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرماتا رہتا ہے،یہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی پر ایک فریضے کی ادائیگی بھی ہوجاتی ہے ، ثواب بھی مل جاتاہے اور ساتھ ہی یہ عبادت گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے۔

ان فرائض کے ساتھ ساتھ ان سے پہلے یا بعد کچھ سنتیں اور نوافل مقرر کیے گیے ہیں، اسی طرح بعض نوافل کے لیے خاص اوقات احادیث میں ذکر کیے گئے ہیں، ان سنتوں اور نوافل کی بھی بڑی اہمیت ہے۔

فرض نمازوں کے علاوہ جن نمازوں کا نبی کریم ﷺنے خود اہتمام فرمایا، ترغیب دی، تاکید فرمائی، وہ سنتیں کہلاتی ہیں، پھر علمائے کرام نے ان میں دو اقسام ذکر کی ہیں، ایک کو سنتِ مؤکدہ کہتے ہیں اور دوسری کو سنتِ غیرمؤکدہ کہتے ہیں۔

سنتِ مؤکدہ وہ نمازیں کہلاتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ان کے پڑھنے کا بڑا اہتمام فرمایا، شدید کسی عذر کے بغیر کبھی بھی انہیں ترک نہیں فرمایا، یہ سنت مؤکدہ ہیں،ان کی حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے،ان سنتوں کا بغیر کسی عذر کے چھوڑنا گناہ ہے، ان کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کے ذمہ ضروری ہے، ہر مسلمان کو یہ باتیں سمجھنی چاہئیں ،یاد رکھنی چاہئیں اور ان پر عمل کرنا چاہیے۔ سنت غیر مؤکدہ وہ نمازیں ہیں کہ بسااوقات رسول اللہ ﷺنے انہیں ترک بھی فرمایا،ان کا حکم یہ ہے کہ ان نمازوں کا پڑھنا ثواب ہے اور ترک کرنے سے گناہ نہیں ہوگا۔ بہر حال سنت مؤکدہ کی بڑی فضیلت ہے۔

سنّتِ مؤکدہ کے اہتمام پر جنت میں گھر کی بشارت: اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺسے وہ مشہور روایت نقل کی گئی ہے جو صحیح مسلم میں امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جو آدمی دن رات میں بارہ رکعتیں ادا کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ احادیث میں صراحت ہے کہ اس سے مراد فرض نماز کے علاوہ نماز ہے، یعنی سنتیں مراد ہے۔

یہ بارہ رکعتیں کون سی ہیں ؟فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں یہ سنت مؤکدہ ہیں ،ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے فرض کے بعد دو رکعتیں یہ بھی سنت مؤکدہ ہیں، مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتیں اور عشاء کی نماز کے بعد دو رکعتیں یہ بھی سنت مؤکدہ ہیں، یہ بارہ رکعتیں بن جاتی ہیں ،یہ تفصیل خود احادیث میں رسول اللہ ﷺسے نقل کی گئی ہے۔اس لیے ہر ہر مسلمان کو فرض نماز کے ساتھ ان سنتوں کا تو ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔

اس روایت کے راویوں کا عزم اور سنتوں پر پابندی کا جذبہ:۔مسلم شریف میں جہاں یہ روایت موجود ہے ، اس روایت کے راوی عنبسہ بن ابی سفیان ؒفرماتے ہیں اس روایت کو بیان کرکے حضرت ام حبیبہ ؓ فرماتی تھیں : میں نے جب سے اللہ کے رسول ﷺسے ان سنتوں کی فضیلت سنی ہے ،کبھی انہیں ترک نہیں کیا، اور عنبسہ بن ابی سفیان ؓسے اس حدیث کو نقل کرنے والے عمروبن اَوس ؒفرماتے ہیں کہ : عنبسہ ؒفرماتے تھے جب سے میں نے حضرت ام حبیبہ ؓ سے یہ روایت سنی ہے، کبھی ان سنتوں کو نہیں چھوڑ ا، اور عمرو بن اَوس ؒکا عمل نعمان بن سالم ؒیہ نقل کرتے ہیں کہ :عمرو بن اَوس ؒفرماتے تھے، میں نے جب سے عنبسہ سے یہ روایت سنی ہے، ان سنتوں کو نہیں چھوڑا، اور نعمان بن سالم ؒکا عمل اس روایت کے اگلے راوی داؤد بن ابی ہند ؒ،یہ نقل کرتے ہیں کہ :نعمان بن سالم ؒفرماتے تھے ،میں نے جب سے عمرو بن اَوس ؒسے یہ حدیث سنی ہے ،اس وقت سے ان سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑا۔

اندازہ لگایئے ان حضرات کے جذبے کا ، اور رسول اللہ ﷺکی سنتوں سے ان کی محبت کا! کہ جو سن لیا بس زندگی کا عمل بنالیا، جو سن لیا ،اس پر پکے ہوگئے، جو سن لیا، اس پر ہمیشہ عمل پیرا ہوگئے، جو سن لیا، اسے اپنے سینے سے چمٹالیا۔یہی جذبہ ہر مسلمان کا ہونا چاہیے کہ جب سے ہم نے یہ فضیلت سنی ہے ،اس کے بعد ہم نے ان سنتوں کو کبھی ترک نہیں کرنا،تاکہ ہمارا حشر بھی قیامت کے دن ان صحابہؓ و محدثین کرام ؒکے ساتھ ہو۔ ہمیں بھی ان کی معیت و رفاقت نصیب ہو۔

سنتوں اور نوافل کے ذریعے قیامت میں فرائض کی کمی کو پُرکیاجائے گا:۔ایک تابعی جن کا اسم گرامی حُرَیث بن قبیصہ ہے ، وہ فرماتے ہیں ،میں مدینہ منورہ آیا، اور میں نے اس موقع پر اللہ سے دعا کی کہ :اے اللہ !مجھے کسی نیک صالح آدمی کا ساتھ نصیب فرما،چناںچہ ہوا یہ کہ اللہ نے مجھے حضرت ابوہریرہؓ سے ملاقات کی دولت نصیب فرمائی، میں ان کے پاس بیٹھ گیا، اور میں نے ان سے کہا کہ میں اللہ سے یہ دعا کرکے آیا تھا کہ مجھے نیک صالح آدمی کی رفاقت ملے ،چناںچہ میں آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ، سومیری گزارش یہ ہے کہ: مجھے اللہ کے رسول ﷺکے فرامین میں سے کچھ سنائیں ،جو آپ نے اللہ کے رسول ﷺسے سنے ہوں، اللہ مجھے ان سے نفع دے گا۔

حضرت حریث ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نے مجھے جو حدیث اس موقع پر سنائی وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺسے یہ سنا ہے :قیامت میں سب سے پہلے اعمال میں سے نماز کا حساب ہوگا، اگر نماز صحیح اور کامل نکلی تو یہ آدمی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگیا، اور اگر نماز میں کمی کوتاہی ہوئی ،تو یہ آدمی بڑا خسارہ اٹھائے گا، البتہ کسی آدمی کی فرض نماز میں کچھ کمی نکلی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا، میرے اس بندے کے اعمال میں سے فرائض کے علاوہ نمازیں دیکھو یعنی سنن ونوافل دیکھو، اگر ا س کے اعمال میں سنتیں ہیں نوافل ہیں تو ان سنتوں اور نوافل سے فرائض میں جو کمی ہے ،اسے پورا کردیا جائے گا اور یہ آدمی نجات پاجائے گا۔ پھر نماز کے بعد تمام اعمال میں اسی طرح کا حساب ہوگا کہ فرض میں جو کمی ہوگی، اسے فرض کے علاوہ سے پورا کیا جائے گا، مثلاً زکوٰۃ فرض تھی ، اس میں کمی ہوئی تو ایسے شخص نے جو صدقہ خیرات کیا ہوگا ،اس سے زکوٰۃ کی کمی کو پورا کیا جائے گا، اسی طرح تمام فرائض کی کمی کو اس عمل میں فرض کے علاوہ جو آدمی نے انجام دیا ہوگا ،اسے فرض کی کمی کو مکمل کردیا جائے گا۔

یہ روایت ہم سب کے لیے ایک بڑاسبق اور تعلیم ہے کہ ہم سنتوں اور نوافل کا بھی اہتمام کرنے والے بن جائیں، خاص طور پر سنت مؤکدہ تو کسی صورت نہ چھوڑی جائے، تاکہ قیامت میں ہمارے نامۂ اعمال میں فرائض کی کمی کو پُر کرنے کے لیے ہمارے اعمال میں سنتوں اور نوافل کی صورت میں ایسا ذخیرہ موجود ہو جو ہماری کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ بن سکے۔ اللہ ہم سب کو سنتوں کی پابندی کی توفیق نصیب فرمائے اور جو فضیلتیں رسول اللہ ﷺنے سنتوں کے اہتمام پر بیان فرمائی ہیں، وہ ہمیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)