پھر سے دہشت گردی

February 04, 2023

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
پاکستان باقاعدہ طور پر دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے، کے پی کے اور بلوچستان میں تو پہلے ہی پانچ ،سات لاشیں روزانہ کے حساب سےگر رہی تھیں لیکن پنجاب والے وہاں رونما ہونے والے واقعات پر کان ہی نہیں دھرتے، سوائے اس کےکہ پشاور طرز کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جائے، وگرنہ تو صرف پچھلے سال 2022 میں صرف کے پی کے میں دہشت گردی کے پانچ سے چھ سو واقعات وقوع پذیر ہو ئے تھے، اسی طرح 2021 میں بھی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایسے واقعات کی تعداد چند سو ہے۔ ان تمام تر واقعات میں سرکار ی مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق زیادہ تر سیکورٹی اور سرکاری اداروں کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔ یعنی یہ دہشت گرد ریاست ہی کو براہ راست اپنا نشانہ بنا رہے ہیں، اس کے باوجود پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں یا تو کسی مغالطے میں ہیں کہ ان دہشت گردوں کے ساتھ لڑنا ہے یا نہیں لڑنا، دراصل تو پاکستان کے اندر بلکہ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو ان کے لئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ ان عناصر کو گرم ہوالگنے سے بھی بچاتے ہیں۔ دھماکوں اور قتل میں چار چار واقعات میں ملوث افراد یا جنہیں سزائے موت تک ہو چکی ہو انہیں فرار ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ میڈیا پر ایک حال ہی میںریٹائرڈ ہونے والے جنرل کانام بھی لیا گیا ہے اگر اس سطح پر پاکستان میں ان دہشت گردوں کو مدد میسر ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کہاں تک محفوظ ہیں۔ دوسرے پاکستان میں موجود وہ عناصر ہیں جو شروع کے افغان ایشو کے زمانے میں ان مجاہدین کو روس کے خلاف امریکہ کے کہنے پر تربیت دیتے رہے ہیں اور ذہنی طور پر انہی کاحصہ بن گئے تھے۔ یہ 1980 کے بعد سے پیدا ہونے والے افسران وغیرہ ہیں، اس زمانے میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے ان افغانوں اور پاکستان سے بھرتی ہونے والے غریب خاندانوں کے بچوں کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کے مدارس سے دھڑا دھڑ بھرتیاں کی گئی تھیں، افغانوں کے اندر تو وارلارڈز کا کلچرموجود ہی تھاجنگ کرنا ان کا پیشہ ہے، وہاں پر موجود جھتےڈالرز کیلئے خود کو پیش کرتے رہے ہیں، یہ وہی زمانہ ہے جب پاکستانی ایجنسیوں نے بھی خوب مال بنایا تھا، کہیں افغان مجاہدین کو سپلائی میں توکہیں ڈبل گیم کے ذریعے اورطالبان کی پناہ گاہوں کی حفاظت بھی کرتے رہے، اس تمام دور میں پاکستان کی ایجنسیوں میں یہ مغالطہ پیدا ہوگیا کہ ان میں کچھ عناصر ہمارے مطلب کے ہیں جس کا مقصد افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا تھااور بہت سارے گروپوں اور لشکروں سے تعلقات برقرار رکھے جنہیں بعدمیں اچھے طالبان کہا کرتے تھے، ادھر افغانیوں کا پنے جغرافیائی خطے کے اعتبار سے راولپنڈی اور بعض کا اٹک تک کا کلیم تھا بلکہ افغانستان کی سرحدیں پاکستان میں کے پی کے کے اندر تک ہیں لہٰذا ان کا اپنا مختلف ایجنڈا ہے، وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کرتے ہیں، ایک عناصر وہ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پورے پاکستان کو بھی طالبان طرز کا ملک بنا دیا جائے اور یہ مسلم برادر ہوڈ کوپورے ساؤتھ ایشیا زون میں پھیلایا جائے، وہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں، اس لئے وہ پورے پاکستان میں گڑبڑ کرنے کو اپناحق سمجھتے ہیں اور اسے اپنی تحریک کا جزو مانتےہیں۔ یہ عناصر سمجھتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کی بالادستی قائم کرنے کا یہی طریقہ ہے، ایک وہ بھی ہیں جو غزوہ ہند کا تصور رکھتے ہیں اور اس جہاد کو اسلامی تاریخ میں کی گئی پیش گوئیوں کے مطابق سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں قیامت کے قریب دور میں ایک بڑی جنگ ہوگی جس کے نتیجےمیں دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا۔ وہ اس افغانی دہشت گردی کو اس آخری معرکے کا حصہ سمجھتے ہیں اور کمسن نوجوانوں کو تو جنت کا ٹکٹ دیتے ہیں اور ان کے برین واش کرکے انہیں بم بنا دیتے ہیں، اس لحاظ سے اور اس درج بالا تمام پس منظر کو سمجھتے ہوئے یہ تحریر کرنا کوئی مشکل نہیں کہ پاکستان میں اس دہشت گردی کے واقعات میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ دہشت گردی پھر سے افغان سرحد سے نکل کے پنجاب اور سندھ میں پھیل سکتی ہے، ان گروپوں کو ہمارے کچھ سیاستدان بھی استعمال کرتے ہیں کچھ براہ راست اور کچھ ایجنسیوں کی مدد سے، اس لئے اس پورے بیانیے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، اس غوروخوض سے توجہ ہٹائی گئی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے دیوار پر لکھے پڑھے جاسکتے ہیں۔