اچکزئی بمقابلہ سوری: ضمنی میں کون میدان مارے گا؟

February 16, 2023

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے فیصلوں کے تحت پارٹی ارکان اسمبلی کے استعفوں کے بعد جہاں ملک بھر میں قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں پر ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں وہاں بلوچستان میں بھی 16مارچ کو بلوچستان میں صرف ایک حلقہ این اے 265 کوئٹہ 2 پر بھی ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں یہ نشست پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے مستعٰفی ہونے کے بعد خالی ہوئی ہے۔

ضمنی انتخابات کیلئے 32 امیداورمیں مقابل ہے، جن میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، ذاکر حسین کاسی، پی ٹی آئی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، نوابزاہ شریف جوگیزئی، پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر حاجی علی مدد جتک، سید داود اغا، نورالدین کاکڑ، سحر گل، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی، غلام حیدر، نسیم الرحمٰن، نیشنل پارٹی کے محمد رمضان ہزارہ، اسحٰق علی،بلوچستان نیشنل پارٹی کے محمد جمال، پشتونخوامیپ (خوشحال) کے رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے، عبدالسلام، بلوچستان عوامی پارٹی کے حاجی فوجان بڑیچ، جے یوائی (نظریاتی) کے قاری مہراللہ، پاکستان راہ حق پارٹی کے شکیل احمد، ٹی ایل پی کے وزیر احمد نورانی، ایم کیو ایم کے ملک عمران اللہ کاکڑ، طلعت رحمٰن، جبکہ آزاد امیدوار نیازی اسلم، طالب حسین، نعمت اللہ، دانش مرتضیٰ، سید محمد شامیر ہاشمی، مقبول احمد، عبدالناصر اور ولی محمد شامل ہیں۔

امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد ظاہری طور پر جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ اس حلقے میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اورپی ٹی آئی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری مقابلہ ہوگا، 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری منتخب ہوئے تھے جبکہ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی دورئے نمبر پر رہے تھے جبکہ حلقے سے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اورپاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی سمیت دیگر امیدوار بھی میدان میں تھے۔

تاہم کامیابی کا سہرا پی ٹی آئی کے قاسم خان سوری کے سر سجا تھا اور وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعٰفی ہونے تک قومی اسمبلی کے رکن رہے تھے تاہم ان کی حلقے سے کامیابی کو پہلے ہی دن نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے چیلنج کیا تھا اور اب جبکہ حلقے میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں تو اس کے خلاف بھی نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے اسپیکر قومی اسمبلی، چیف الیکشن کمشنر، صوبائی الیکشن کمشنر اور ریٹرننگ افسر کو درخواستیں دی ہیں جن میں ان کا موقف ہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر حلقہ این ائے 265 کوئٹہ کے ووٹوں کی دوبارہ تصدیق کی گئی تھی اور نادرا کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ حلقہ میں دو مزید پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کو بھی شامل کیا گیا جہاں ڈھائی ہزار ایسے ووٹ تھے جنہیں دوبارہ کاسٹ کیا گیا۔

متعدد ووٹوں پر دو مرتبہ مہر ثبت کی گئی تھی جبکہ ایسے ووٹ بھی تھے جن پر ہاتھوں کے علاوہ پیروں کی انگلیوں کے نشانات لگائے گئے، الیکشن ٹربیونل نے نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر حلقہ میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا جس پرقاسم خان سوری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھاسپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو 2019ء میں معطل کیا جو آج دن تک برقرار ہے اور قاسم سوری سپریم کورٹ کے اسٹے پر رکن قومی اسمبلی برقرار رہے اور اسٹے پر رکن قومی اسمبلی رہنے کے باعث وہ از خود استعفیٰ نہیں دے سکتے تھے انہوں نے اپنی درخواستوں میں یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ حلقہ پر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف مقدمہ زیر التواء ہے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے اس کے بعد حلقہ میں انتخابات کرائے جائیں۔

ایک جانب نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی 2018کے انتخابی نتائج کے بعد سے حلقے کے نتائج کے خلاف متعلقہ فورمز پر قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور اب جب حلقے میں ضمنی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے تو اس انتخاب کو روکنے کے لئے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کیا ہے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں صوبائی الیکشن کمشنر کا موقف سامنے آیا کہ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کی آئینی درخواست کا جائزہ لیا جارہا ہے قومی اسمبلی کی نشست این اے 265 پر حکم امتناعی کا معاملہ لیگل ٹیم دیکھ رہی ہے۔

دوسری جانب حیرت انگیز امر یہ ہے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ضمنی انتخابات میں خود حصہ نہیں لے رہے حالانکہ حلقے میں ضمنی انتخاب کرانے کے اعلان کے بعد توقع کی جارہی تھی وہ نہ صرف انتخابات میں امیدوار ہوں گے بلکہ انہیں ایک مضبوط امیدوار کے طور پر بھی دیکھا جارہا تھا۔

حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد 404391 ہے جن میں مرد ووٹرز 226435 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 177865 ہے،اس حلقے سے ماضی میں پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں جبکہ اسی حلقے سے جمعیت علما اسلام بھی کامیابی حاصل کرتی رہی ہے، جیسا کہ اس سے پہلے بھی اس بات کا زکر ہوچکا کہ حلقے پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اورپی ٹی آئی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری مقابلہ ہوگا تاہم اس حوالے سے صورتحال میں اس وقت تبدیلی آئی جب جمعیت علما اسلام نے ضمنی انتخابات میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی حمایت کا اعلان کردیا جس کے بعد حلقے میں پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں، گزشتہ انتخابات میں اس حلقے پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی امیدوار سابق اسپیکر قومی اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی نے بھی بھرپور مقابلہ کیا تھا، تاہم سیاسی حلقے ضمنی انتخاب سے قبل نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی کی درخواست کو اہمیت دئے رہے ہیں کہ اگر وہ اپنا موقف درست ثابت کرانے میں کامیاب ہوئے تو حلقے میں صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔