صحتِ زباں: ہائے ملفوظی ....

February 22, 2023

اردو کا ایک حرف ِ تہجی ’’ہ‘‘: ہائے ملفوظی اور ہائے مختفی

اردو ، فارسی اور عربی کے حروف ِ تہجی میں شامل حرف ’’ہ‘‘کاتلفظ ’’ہے‘‘ ہے اور اس کا ایک نام اور تلفظ ’’ ہا‘‘ بھی ہے۔ اس ’’ہ‘‘ کو بعض بچے ’’ہاتھی والی ہ‘‘ کہتے ہیں ۔لیکن ا س کا اصطلاحی نام ہائے ہَوّز ہے(یعنی وہ ’’ہ‘‘ جس سے ہوز لکھا جاتا ہے)۔ جس ’’ح‘‘ کو بچے

’’ حلوے والی ح ‘‘کہتے ہیں اس کا اصطلاحی نام حائے حُطّی ہے (کیونکہ ابجد میں ہوّز ’’ہ ‘‘ سے اور حطی ’’ ح ‘‘سے لکھا جاتا ہے )۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی کتاب لغات ِ روزمرہ میں لکھا ہے کہ غالب نے اپنے ایک خط میں اردو کے حروف ِ تہجی کی تذکیر و تانیث بتائی ہے اور غالب کے مطابق ’’ح‘‘ اور ’’ہ‘‘ دونوں مونث ہیں ۔ یعنی ’’ح‘‘ ہوتا نہیں ،ہوتی ہے اور ’’ہ‘‘ بھی ہوتی ہے ۔

اِس حرف ’’ہ‘‘ یا ’’ہا ‘‘یا ’’ہاے ہوّز‘‘کی تین قسمیں ہیں : ہائے ملفوظی،ہائے مختفی اور ہائے مخلوط ۔

٭……ہائے ملفوظی……٭

ملفوظی یعنی جس کا تلفظ ادا کیا جائے۔ جب ’’ہ‘‘ کسی لفظ میں اس طرح آئے کہ اس کی آواز واضح طور پر سنائی دے تو اسے ہائے ملفوظی کہتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے جامع القواعد میں لکھا ہے ’’ہائے ملفوظی جو تلفظ میں کھل کر پڑھی جاوے ، مثلاً راہ، ماہ، کوہ ‘‘۔

ہائے ملفوظی اگر لفظ کے آخر میں آئے اور پچھلے حرف سے جڑی ہوئی نہ ہو تو اسے الگ یعنی ’’ہ‘‘ کی طرح لکھتے ہیں، جسے بعض لوگ ’’گول ہ‘‘بھی کہتے ہیں (جیسے : آہ، چاہ ، شاہ، گروہ، انبوہ، اندوہ) ۔ اگر لفظ کے آخر میں آئے اور جڑی ہوئی ہو تو ملا کر لکھتے ہیں مگر پھر بھی اپنی آواز دیتی ہے، جیسے : جگہ ، سولہ ، یعنی سولہ کے عدد(۱۶)کا درست تلفظ آخر میں ’’ہ‘‘ کی واضح آواز کے ساتھ ہے ، بلکہ گیارہ سے لے کر اٹھارہ تک سب اعداد کے آخر میں ہائے ملفوظی ہے (اگرچہ لوگ عام طور پر اس طرح نہیں بولتے)۔اسی طرح لفظ جگہ کا درست تلفظ اس طرح ہے کہ آخر کی ‘‘ہ‘‘ واضح طور پر سنائی دیتی ہے (اور اس کا تلفظ بھی عام طور پر غلط کیا جاتا ہے)۔

اگر یہ’’ہ‘‘ درمیان میں آئے تو اسے اس طرح لکھاجاتا ہے کہ کہنی کی شکل بنتی ہے ۔ اس لیے اسے کہنی والی ’’ہ‘‘ بھی کہتے ہیں ، جیسے : کہانی۔ بلکہ خود لفظ کہنی میں کہنی والی ’’ہ‘‘ ہے۔ یہ ’’ہ‘‘یعنی ہائے ملفوظی اردو میں اگر لفظ کے شروع میں آئے تو اسے ایک شوشے کی شکل میں لکھتے ہیں اور اس کے نیچے ایک قلابہ یعنی ہُک (hook) جیسی علامت بناتے ہیں ، جس کا نام رشید حسن خاں صاحب نے ’’لٹکن‘‘ لکھا ہے۔اس علامت یعنی لٹکن کو طرّہ بھی کہتے ہیں۔

مثلاً لفظ ’’ہاتھی ‘‘میں ہائے ملفوظی ہے اور اسے لٹکن والی یا ہُک والی ’’ہ‘‘ سے لکھا جاتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ایسے الفاظ کے شروع میں ’’ہ‘‘ کی بجائے دوچشمی ہ (یعنی ھ) لکھنا درست نہیں ہے ۔ گویا ہاتھی، ہاشمی اور ہندوستان کو ھاتھی، ھاشمی اور ھندوستان (دوچشمی ھ سے)نہیں لکھنا چاہیے ۔ اسی طرح درمیان میں ہائے ملفوظی آئے تو اسے بھی دوچشمی ھ سے لکھنا غلط ہے، مثال کے طور پر لاہور کو لاھور(دو چشمی ھ سے) نہیں لکھنا چاہیے۔

ہائے ملفوظی اگر لفظ کے آخر میں آئے تو اردو میں اس کی جمع بناتے ہوئے ’’ہ‘‘ کو برقرار

رکھا جاتاہے ، مثلاً آہ سے آہیں ، راہ سے راہیں ۔ جمع کی مغیرہ حالت میں بھی ’’ہ‘‘ باقی رہے گی، جیسے: آہوں ،راہوں ، شاہوں ، وغیرہ، جیسے : آہوں کا دھواں، شاہوں کی عدالت۔ (لیکن ہائے مختفی کی جمع میں ایسا نہیں ہوتا)۔

جن الفاظ کے آخر میں ہائے ملفوظی ہے جب ان کو کسی مرکب (مرکب ِ اضافی یا مرکب ِ توصیفی) میں استعمال کرتے ہیں تب بھی ’’ہ‘‘ کی آواز برقرار رہتی ہے ، البتہ ان پر کسرہ یعنی زیر لکھا جاتا ہے ، جیسے: راہِ خدا، شاہ ِ مرداں، کوہ ِ گراں ،چاہ ِ زمزم(یاد رہے کہ یہاں چاہ فارسی کا لفظ ہے اور معنی ہیں کنواں، اردو کا چاہ یعنی چاہت یا محبت الگ لفظ ہے اور اس پر اس طرح اضافت نہیں آسکتی)۔مرکب ِ عطفی میں بھی ہائے ملفوظی کی ’’ہ‘‘ کی آواز باقی رہے گی ، جیسے :آہ و فغاں،کوہ و دمن ، شاہ وگدا، ماہ و انجم ۔

٭……ہائے مختفی ……٭

لفظ ’’مختفی ‘‘کا تلفظ یوں ہے کہ اس میں ’’م‘‘ پر پیش ہے۔ ’’خ‘‘ ساکن ہے اور ’’ت ‘‘ پر زبر ہے۔یہ ’’ہ‘‘ کی ایک صورت ہے ۔ یہ وہ ’’ہ ‘‘ ہے جو لفظ کے آخر میں آتی ہے اور اسے لکھتے ضرور ہیں مگر اس کا تلفظ ’’ہ‘‘ کے بجائے الف یا زبر کی طرح کرتے ہیں، جیسے : دیوانہ، فرزانہ، آشیانہ، سنجیدہ ، گندہ، تازیانہ، گذشتہ، غنچہ ، وغیرہ۔ ان الفاظ کے آخر میں جو ’’ہ‘‘ ہے اس کا تلفظ خفیف یعنی ہلکا ہوتا ہے اس لیے اسے مختفی کہتے ہیں۔ مختفی کے لفظی معنی ہیں چُھپا ہوا، پوشیدہ۔ اس میں چونکہ ’’ہ‘‘ کی آواز چھپی ہوئی ہے اس لیے یہ نام رکھا۔ایسے الفاظ جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں (مثلاًجامہ، نامہ، فسانہ، سایہ )جب کسی مرکب میں آتے ہیں (چاہے وہ مرکب ِاضافی ہو یا مرکب ِ توصیفی) تو ان پر ہمزہ (ء) لکھتے ہیں اور ’’ہ‘‘ کا تلفظ ادا نہیں کرتے ، مثلاً: جامۂ انسانیت، نامہ ٔ غالب،فسانۂ دل، سایۂ گل، سلسلہ ٔ روز و شب ،نشانہ ٔ ستم، مژدہ ٔ جاں فزا،کاشانہ ٔ پُر نور، بہانہ ٔ بسیار۔فارسی میں کہاوت ہے : خوئے بد را بہانہ ٔ بسیار (یعنی جس کی عادت بری ہو اس کے پاس بہت بہانے ہوتے ہیں)۔

مرکب ِ عطفی میں بھی ہائے مختفی ہو تو ’’ہ‘‘کا تلفظ ادا نہیں ہوتا، مثلاً : پیالہ و مے، شیشہ و پیمانہ، آئینہ و سنگ،غنچہ و گل، قبلہ و کعبہ۔ ان میں ’’ہ‘‘ لکھی جائے گی لیکن پڑھی نہیں پڑھی جائے گی۔بلکہ یہ اپنے سے پہلے والے حرف کی آواز کو سہارا دے گی۔

اسی طرح اردو میں الفاظ کی جمع اور مغیرہ حالت میں ہائے مختفی (ہ) گر جاتی ہے اور چونکہ یہ تلفظ میں نہیں آتی لہٰذا ایسے مواقع پر املا ’’ہ‘‘ کے بغیر ہی درست ہوتا ہے، جیسے : آئینہ لیکن آئینے، آئینوں۔افسانہ لیکن افسانے ، افسانوں۔ دیوانہ لیکن دیوانے ، دیوانوں۔

بعض الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں گول ’’ہ‘‘ آتی ہے لیکن وہ ہائے ملفوظی نہیں ہوتی۔ یہ محض املا کے اصول ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے سے پہلے والے حرف سے ملا کر نہیں لکھی جاسکتی اور الگ سے ’’ہ‘‘ ہی لکھی جاتی ہے لیکن یہ کام ہائے مختفی ہی کا کرتی ہے ، جیسے : سبزہ، زندہ، گندہ، بندہ، مردہ۔ ان الفاظ میں ’’ہ‘‘ لکھیں گے، پڑھیں گے نہیں ۔ اردو میں ایسے الفاظ کی جمع ، مغیرہ حالت اور مرکبات میں ’’ہ ‘‘ کو شامل نہیں کیا جاتا، جیسے : زندوں میں نہ مردوں میں ،خدا کے بندوں کی خدمت ،سبزے کو نہ روندنا۔ان الفاظ کا نہ تو تلفظ ’’ہ‘‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے اور نہ ان کو مغیرہ حالت میں ‘‘ہ‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ ہائے مختفی ہی ہے، ملفوظی نہیں ہے۔ مثلاً زندہ و پائندہ، سبزہ ٔ بیگانہ، بندہ ٔ خدا۔ غالب نے کہا :

سبزہ و گل کہاں سے آئے

اقبال کا مصرع ہے :

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

اقبال نے یہ بھی کہا:

جمہوریت اک طرز ِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے (جاری ہے)

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی