اسلام میں خواتین کے حقوق کا تحفظ اور اُن سے حُسن سلوک کی تعلیم

March 10, 2023

مولانا نعمان نعیم

دنیا کے مختلف ممالک میں ہرسال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ غور کریں تو بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آیا اس دن کو کیوں منایا جاتا ہے؟ اس دن کو منانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اور اس دن کو منانے کے پیچھے کون سے حقائق پوشیدہ ہیں، جن کی بناء پر اس دن کو خواتین کے دن سے منسوب کر دیا گیا ہے؟ اگر اس حوالے سے تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 8 مارچ 1907ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں 10 گھنٹے روزانہ کام کرنے والی خواتین نے اوقات کار کم کرنے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔

ان خواتین کا مطالبہ تھا کہ انہیں مردوں کے برابر حقوق دیئے جائیں، لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعےکچل دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد یورپی ممالک میں ہر سال عالمی کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد ہونے لگا۔ سب سے پہلے 1909ء میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظورکی۔ 1913ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عورتوں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913ء میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔

پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین نے سرکاری طور پر 8 مارچ کو خواتین کا قومی دن قرار دیا اور اس طرح مغرب اور دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ تصور ایک مطالبے کی صورت اختیار کرگیا کہ ملازمت کے اوقات کار اور اجرت میں مرد وزن کی تفریق ختم کی جائے۔ نیز یہ کہ جس طرح مردوں کو ملازمت کی صورت میں اجرت ملتی ہے، اسی طرح عورتوں کوبھی مساوی اجرت دی جائے۔ بعدازاں یہ مطالبہ معاشرے میں مساواتِ مرد و زن کی صورت اختیار کرگیا اور آخر کار یہ تحریک خواتین کے حقوق کے تحفظ کی شکل اختیار کرگئی۔

اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام نے خواتین کے حقوق کا تحفظ تقریباً چودہ سو سال قبل کیا۔ آج یورپ حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا علم بردار بنا ہوا ہے، حقیقت میں انہوں نے عورت کو معاشرے میں اُس کا جائز مقام دلوانے کے بجائے اُسے انتہائی پست انداز میں پیش کیا ،جب کہ انسانی حقوق کے سب سے عظیم علم بردار نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ ہیں۔

احترام انسانیت اور انسانی حقوق کے تاریخ ساز چارٹر خطبۂ حجۃ الوداع میں محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔‘‘ جب کہ اسلام کی آمد سے قبل مالی میراث کے بارے میں عرب اہل جاہلیت کا یہ نظریہ تھا کہ جائیداد کا وارث اور حق دار صرف اور صرف مرد ہے۔ اس لیے کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، اسلحہ اٹھاتا ہے، جنگ کرتا ہے ،جب کہ عورتیں ان صفات سے محروم ہیں، لہٰذا وہ وارث بننے یا ورثہ کی حقدار نہیں ہوسکتیں۔ پھر اسلام کا عظیم الشان دور آیا،جو سسکتی انسانیت کے لئے مسیحا ثابت ہوا، مرد و زن کو اس مثالی دین نے وہ احکام اور تعلیمات دیں جو دونوں کی جسمانی اورحیاتیاتی سانچوں کے عین مطابق ہیں۔

آپﷺ کی آمد سے پہلے عورت معاشرے کا ایک انتہائی پسماندہ اور محکوم طبقہ سمجھی جاتی تھی، اُسے معاشرے میں کوئی عزت اور مقام حاصل نہیں تھا، لیکن اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ عورت کو معاشرے میں نہ صرف جینے کا حق دیا، بلکہ اُسے اُس کا جائز مقام دلوایا اور مردوں پر عورتوں کے متعدد حقوق عائد کیے۔ چناںچہ اسلام نے ماں کے روپ میں عورت کا درجہ اس طور پر بلند کیا کہ ماں کے قدموں تلے جنت قرار دی ،اس کے ساتھ ساتھ باپ کے مقابلے میں ماں کا مقام تین درجے بلند کیا۔

ماں کے حق کے حوالے سے تفسیرابن کثیر میں ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے ہوئے طواف کررہا تھا، اس نے حضور اقدس ﷺسے عرض کیا کہ کیا میں نے اس طرح خدمت کرتے ہوئے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سانس کا حق بھی ادا نہیں ہوا۔ اسی طرح اسلام نے عورت کو بیوی کا درجہ دے کر اس قدر اُس کی شان بڑھائی کہ اللہ رب العزت نے اپنی کتاب مبین میں عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’اور عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر ویسا ہی حق ہے جیسے مردوں کا عورتوں پر حق ہے اور مردوں کو اُن پر ایک منزلت حاصل ہے اور یہ منزلت اللہ رب العزت نے مردوں کو عورتوں پر اس لیے عطا فرمائی ہے کہ وہ عورتوں کی نگرانی،اُن کی نگہبانی اور اُن کے نان نفقے کی ذمے داری بہتر طور پر انجام دیں۔‘‘(سورۃ البقرہ)

جب کہ اللہ کے رسول ﷺنے عورتوں کے ساتھ متعدد موقعوں پر اچھے برتاؤ کی تلقین کی ۔جامع ترمذی میں آپﷺ کا ارشاد ہے:’’ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ معاملات میں اچھے ہیں‘‘ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺنے عورت کو ،ماں، بہن ،بیوی اور بیٹی کے روپ میں اعلیٰ مقام دیا، بیٹی کی پرورش کرنے اور بلوغت کے بعد اُن کی رخصتی کردینے کی صورت میں جنت میں ساتھ رہنے کی ضمانت عطا فرمائی ،چناںچہ بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس نے دو یا تین بیٹیوں کی یا دو یا تین بہنوں کی پرورش کی اور وہ اُن کی ذمے داریوں کو نبھاتا رہا، یہاں تک کہ وہ اُس سے شادی کردینے کی صورت میں یا فوت ہوجانے کی صورت میں جداہوئیں تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح میری یہ دو انگلیاں، آپ ﷺنے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا۔ اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں نبی کریم ﷺ کے حوالے سے ایک روایت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کی ذمے داریوں کے ذریعے آزمایا گیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے وہ آزمائش میں کامیاب ہوا تو یہ لڑکیاں اُس کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔

جوں جوں زمانہ ترقی کرتا رہا، اسلام مخالف سرگرمیوں میں بھی اضافہ اور نت نئے طریقے ایجاد ہوتے رہے، مغرب نے اسلام کے ہراس نظریے کو مٹانے اور داغ دار کرنے کی پوری کوشش کی، جس کے زیر اثر ایک صحت مند انسانیت سانس لے رہی تھی۔ یورپ نے اسلامی نظریات و تعلیمات کے مقابل اپنے غیرمتوازن نظریات کو لاکھڑا کیا، اس کی ظاہری چمک دمک دکھاکر سادہ دل انسانوں کو پھانسنے کی بھرپور کوشش کی۔وہ دور رس منفی نتائج سے بے خبر جدید تہذیب کے بہاؤ میں بہتے چلے گئے۔ اس تہذیب سے جتنا نقصان عورت کی ذات کو پہنچا ،کسی اور کو نہیں پہنچا۔

مغرب عورت کو گھروں سے نکال کر عام شاہراہوں پر نمائش کے لیے لاکھڑا کیا، اسلام نے اس کے برعکس اسے عزت وعظمت عطا کی۔ اسلام میں عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے، بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیاگیا ہے جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ سے جس طرح دین واخلاق کی تعلیم مرد حاصل کرتے تھے، اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں، آپ نے ان کے لئے اوقات متعین فرمادئیے تھے ،جن میں وہ آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں، آپ ﷺکی ازواج مطہراتؓ اور خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عورتوں کی بلکہ مردوں کی بھی معلّمہ تھیں، اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث، تفسیر، فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اشراف تو درکنار نبی اکرمﷺ نے لونڈیوں تک کو علم اور ادب سکھانے کا حکم دیا۔ پس جہاں تک تعلیم و تربیت کا تعلق ہے، اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ، البتہ نوعیت میں فرق ضرور ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اسے ایک بہترین بیوی، بہترین ماں،اور بہترین گھروالی بنائے۔ اس کا دائرئہ عمل گھر ہے، اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بناسکتے ہیں، مزید برآں وہ علوم بھی اس کے لئے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے اور اس کے اخلاق کو سنوارنے والے اوراس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اورایسی تربیت سے آراستہ ہونا ہر مسلمان عورت کے لئے لازم ہے۔ اس کے بعداگرکوئی عورت غیرمعمولی عقلی و ذہنی استعداد رکھتی ہو،اور ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہے تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے۔

بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔اسے ایسے تمام فرائض سے سبکدوش کیاگیا جو بیرونِ خانہ امور سے تعلق رکھنے والے ہیں، مثلاً نمازِ جمعہ، جہاد، جنازہ میں شرکت، عورت کے لئے ضروری نہیں، نیز شریعت نے اسے محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ اس کے علاوہ اسلام نے جو نظریہ حجاب عورتوں کو دیا ہے، ان کے تحفظ کا واحد ذریعہ یہی ہے، اس سے ان میں خود اعتمادی پیداہوتی ہے، عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جن کواسلام اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی جوچیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، وہ اس کا چہرہ ہی تو ہے، نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتا ہے۔