حقوق کس کے پامال ہورہے ہیں

March 28, 2023

تحریر: محمد صادق کھوکھر۔۔۔۔ لیسٹر
آج کل آزادی، مساوات، عدل و انصاف اور حقوق کا بڑا چرچا ہے، عالمی دن منائے جارہے ہیں، جلسے، جلوس، سمینار اور مزاکرے منعقد ہورہے ہیں حال ہی میں خواتین کا عالمی دن بھی منایا گیا، اس میں بھی حقوق کے نعرے بلند ہوئے،پسماندہ علاقوں کا رہنے والا باشندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس طرح دن منانا فیشن سا بن گیا ہے، ناچ کود کر اور بھنگڑے ڈال کر خواتین ہلہ گلہ کر لیتی ہیں لیکن کوئی غور نہیں کرتا کہ حقوق کس کے پامال ہو رہے ہیں، مثلا" دیہاتی خواتین کس طرح بے بسی اور بے کسی کی زندگی بسر کرتی ہیں، کوئی ان کے حقوق کی آواز بلند نہیں کرتا، کوئی ان خواتین کی بات نہیں کرتا جو اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کیلئے دوسروں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہیں لیکن اس مشقت کے باوجود ان کی اجرت اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتیں، کئی خواتین ایسی بد نصیب ہوتی ہیں جن کی بچیاں بھی دوسروں کے گھر جاکر ان کے برتن مانجتی ہیں۔ یہ معصوم بچیاں ان کی جھڑکیں کھاتی ہیں، کچھ بد بخت تو انہیں مارتے بھی ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے واقعات بھی منظرِ عام پر آئے ہیں کہ ان کا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے لیکن بہت ساری بچیاں شرم و حیا کے مارے لب کشائی نہیں کر سکتیں، وہ چپ چاپ برداشت کرتی جاتی ہیں، کیا ان پھول جیسے بچوں کے حقوق نہیں ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکیں، اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بات کرنے والی اکثر خواتین کے گھروں میں ایسے ملازمین کا استحصال ہوتا ہے، گھروں میں نوکر رکھنا ضرورت کی بجائے اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے، یورپ میں رہنے والے اس اسٹیٹس سے محروم نہیں، یہ اس رویہ کی علامت ہے جو انگریز اور دوسری استعماری قومیں محکوم ممالک کے باشندوں کے ساتھ روا رکھتے تھے اور اب بڑے خاندانوں کا رواج بن چکا ہے لیکن کوئی اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا، کارخانوں میں مزدوروں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ بھی عیاں ہے مالک مزدوروں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتے ہیں، کم از کم انہیں برابر کا انسان تو سمجھا جائے، جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ کسانوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں، ان علاقوں میں اوّل تو تعلیمی ادارے نہیں ہیں اور جو ہیں وہ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، اساتذہ کی کمی، فرنیچر کا نہ ہونا اور خستہ عمارتیں ان کا مقدر ہیں، بچے ننگے فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، در حقیقت ان بچوں کو عملاً تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ وڈیرے ان سے کام لیتے رہیں، آخر ان کے حقوق کی بات کیوں نہیں کی جاتی، سیاست دان کیوں سوئے ہوئے ہیں، مریم نواز کہتی ہیں کہ جب تک نواز شریف کو انصاف نہیں ملتا الیکشن نہیں ہوں گے، یہ سیاست دان اتنے ظالم ہیں کہ ایک شخص کی خاطر پورے ملک کی قسمت داؤ پر لگا دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کے سوا ملک کے باقی باشندوں کو انصاف مل گیا ہے؟ کیا گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن کو انصاف مل گیا ہے، انہوں نے تو ملک کی قسمت کو اپنی ذات سے مشروط نہیں کیا۔ جس طرح مریم اور عمران کر رہے ہیں، کیا انہوں نے کبھی غریبوں کے متعلق بھی خیال کیا کہ وہ کس طرح تنگ دستی میں اپنے شب و روز بسر کرتے ہیں، بلوچستان کے حالات اتنے دگر گوں ہیں جس کا کسی کو اندازہ نہیں، وہاں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر، صحت کی سہولتیں نہیں ہیں، ذرائع امدورفت بھی نہ ہونے کے برابر، گوادرکے باشندے علاج معالجےکیلئے کراچی جاتے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمٰن جنہوں نے گوادر کے باشندوں کیلئے آواز اٹھائی ہے انہیں بغاوت کے مقدمے میں جیل پہنچا دیا گیا ہے، ان کا جرم محض یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ساحلِ سمندر پر مچھلیاں پکڑنے کا پہلا حق وہاں کے مقامی باشندوں کا ہے، ان کی ضمانت تک منظور نہیں ہوتی، سوال یہ ہے کہ کیا سارے حقوق کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں رہنے والوں کے ہیں، کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے، وہاں سیلاب آتا ہے تو ہمارے ذرائع ابلاغ ہفتوں بعد اس کی خبر دیتے ہیں وہاں دھرنے دینے والوں کی خبر ایک ماہ بعد ہمارے عوام کو ملتی ہے، آخر ان کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سارے حقوق صرف اشرافیہ کے ہی محفوظ ہیں، سارے وسائل چند بڑے شہروں میں پر صَرف کر دئیے جاتے ہیں، باقی عوام تعلیم روز گار اور صاف پانی کو ترس ترس کر زندگی گزار دیتے ہیں اور کسی کو ان کے حقوق یاد نہیں آتے البتہ مخصوص دنوں میں بڑے شہروں میں انسانی حقوق کے علمبردار جلسے جلوس منعقد کر کے اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور پھر اگلے سال کیلئےانتظار کیا جاتا ہے جس سے حکومت اور غیر ملکی این جی او خوش ہو جاتی ہیں۔