بچوں کی جسمانی اور دماغی نمو میں مناسب خوراک کی اہمیت

April 27, 2023

جب ہم بچوں کی اچھی دیکھ بھال کی بات کرتے ہیں تو اس میں انھیں مناسب غذا فراہم کرنے کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق ایک نئی تحقیق میں بھی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے بچوں کو دی جانیوالی ناکافی خوراک کا اثر ان کے قد پر پڑتا ہے، جس سے طویل القامت اور پست قامت قوموں کے بچوں کے قد میں اوسطاً 20 سینٹی میٹر یا سات عشاریہ نو انچ کا فرق آ جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق، 2019ء میں دنیا کے سب سے طویل قامت 19 برس کے لڑکوں کا تعلق ہالینڈ سے تھا، جن کا قد 6 فٹ تھا اور دنیا کے سب سے کم قامت 19 برس کے لڑکے کا تعلق ملک تمور لیستے سے تھا جس کا قد صرف پانچ فٹ تین انچ تھا۔

برطانیہ کی بات کریں تو یہ دنیا کے مختلف ملکوں کے شہریوں کے قد کے اعتبار سے مرتب کی گئی فہرست میں کچھ درجے نیچے چلا گیا ہے۔ 2019ء میں برطانیہ کے 19 برس کے لڑکے اپنے قد کے اعتبار سے دنیا بھر کے ملکوں میں 39ویں نمبر پر تھے جن کے قد اوسطاً پانچ فٹ دس انچ ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے برعکس، 1985ء میں برطانیہ دنیا بھر میں 28ویں نمبر پر تھا۔ یہ تحقیق بین الاقوامی شہرت کے حامل طبی جریدے دا لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔

تحقیق کاروں کے مطابق دنیا بھر کے ملکوں کے بچوں کے قد اور وزن کا ریکارڈ رکھنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان اعداد و شمار سے ان ملکوں میں بچوں کو دستیاب خوراک، صحت کی سہولیات اور صحت مند ماحول اور فضا میسر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لینسٹ کی ٹیم نے ساڑھے چھ کروڑ بچے، جن کی عمریں پانچ سے 19 برس کے درمیان تھیں، کا 1985ء سے لے کر 2019ء تک دو ہزار سے زیادہ مرتبہ مشاہدہ کیا۔ ان تجزیوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ2019ء میں دنیا بھر میں شمالی، مغربی اور وسطی یورپ میں پرورش پانے والے بچوں اور نوجوانوں کے قد سب سے زیادہ ہیں۔

اسی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ 19 سال کی عمر کے نوجوانوں میں سب سے کم قد جنوب اور جنوبی مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا اور مشرقی افریقا کے خطے کے ملکوں میں بسنے والے نوجوانوں کا ہے۔

ان تجزیوں سے درج ذیل حقائق سامنے آئے ہیں۔

اوسطاً لاؤس کے 19 سال کی عمر کے نوجوانوں کا قد ہالینڈ کے 13 سال کے بچوں کے برابر ہے۔

گوئٹے مالا، بنگلہ دیش، نیپال اور تمور لیستے میں 19 سال کی عمر کی لڑکیوں کا اوسطاً قد ہالینڈ کی گیارہ سال کی لڑکیوں کے اوسط قد کے برابر ہے۔ برطانیہ میں 19 برس کے نوجوانوں کا قد اوسطاً پانچ فٹ دس انچ ہوتا ہے جب کہ اسی عمر کی لڑکیوں کا قد اوسطاً پانچ فٹ پانچ انچ ہوتا ہے۔ اس سے قبل کے 35 برس میں جن قوموں کے نوجوانوں کے قد میں واضح فرق دیکھنے میں آیا ہے ان میں چین اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔

وزن میں صحت مند اضافہ

تحقیق کاروں نے بچوں کے بی ایم آئی کا بھی مشاہدہ کیا۔ بی ایم آئی ایک ایسا طریقہ کار یا معیار ہے جس میں بچوں کے وزن اور قد دونوں کو دیکھا جاتا ہے۔ تحقیق کاروں کو معلوم ہوا ہے کہ بحرالکاہل کے جزائر، مشرق وسطیٰ، امریکا اور نیوزی لینڈ میں بسنے والے نوجوانوں کا بی ایم آئی سب سے زیادہ ہے۔19سال کے نوجوانوں میں سب سے کم بی ایم آئی جنوب ایشیا کے ملکوں مثلاً بنگلہ دیش اور بھارت کے نوجوانوں کا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق جن ملکوں کے نوجوانوں کا بی آئی ایم سب سے زیادہ ہے اور جن ملکوں کے نوجوانوں کا بی ایم آئی سب سے کم ہے، ان کے وزن کا اوسط فرق 25 کلو گرام ہے۔

تحقیق کار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ لوگوں کے قد اور وزن کا تعلق ان کی جینیات سے بھی ہوتا ہے لیکن جب معاملہ پوری قوم کی صحت کا آتا ہے تو اس میں خوراک اور ماحول بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر خوراک کی دستیابی کے بارے میں پالیسی سازی کا مرحلہ آتا ہے تو پوری توجہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو دستیاب خوراک پر دی جاتی ہے لیکن ان کے خیال میں اس سے بڑی عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی نشوونما پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔

اسکول کے بچوں کیلئے مفت خوراک

برطانیہ کے امپیریئل کالج کی ڈاکٹر اندرے رودریگوز مارتینز جو اس تحقیق میں پیش پیش رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ بچپن اور بلوغت میں صحت مند وزن اور قد کے فوائد زندگی بھر حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے نتائج سے ایسی پالیسیاں بنانے کی حوصلہ افزائی ہو گی جو صحت مند خوراک کی وافر مقدار اور کم قیمت دستیابی کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں، جس سے بچوں اور نوجوانوں کی بہتر نشوونما ہو سکے اور غیر ضروری طور پر موٹا ہونے کے بجائے ان کے قد اور وزن میں توازن برقرار رہے۔

انھوں نے کہا کہ ان پالیسی اقدامات میں کم آمدن والے گھرانے کے بچوں کو مفت خوراک کے واؤچرز کی تقسیم شامل ہے تاکہ ان کو مناسب خوراک دستیاب ہو سکے اور اسکول کے بچوں کو مفت اور صحت مند خوراک کی فراہمی شامل ہو۔