عمران کیلئے آپشنز؟

June 01, 2023

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
9مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد بہت سے لوگوں کے خیال میں عمران خان کیلئے سیاست میں باعزت زندہ رہ جانا ایک حقیقت نہیں رہ گیا، عمران خان کو جس دن اعلیٰ عدلیہ سے خوفناک انداز میں حراست میں لیا گیا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا، اس دن یقیناً وہ اپنے گھر سے گرفتاری دینے کی منصوبہ بندی کے بغیر نکلے تھے، وہ ہائیکورٹ میں ضمانت کیلئے مختلف مراحل سے گزر رہے تھے کہ پولیس کی بڑی تعداد ان پر آن پڑی اور دھکم پیل میں گرفتار کرلیا گیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس ہے مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو کچھ ہوا وہ پی ٹی آئی چیف کی منصوبہ بندی تھی، یہ مقامی لوگوں کا گرفتاری پر ردعمل تھا، نہ ہی اتنے بڑے احتجاج کیلئے کوئی فرد یا جماعت فوری طور پر اہتمام کر سکتی ہے اگر کوئی یہ کہے کہ 11ماہ کی مغزماری کے بعد ملک کا بڑا حصہ احتجاج کیلئے تیار ہو چکا تھا، اب حکومتی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں پوری خبر تھی کہ ملک احتجاج کیلئے تیار ہو چکا ہے اور حکومت نے ایسے اقدامات کیوں نہ اٹھائے کہ یہ لاوا جو ابھی مکمل طور پر ابل کر سامنے نہیں آیا اس اسٹیج پر نہ پہنچ پاتا، کور کمانڈر رہائش گاہ اور دیگر اہم فوجی عمارات وہ قومی نشانات ہیں جن کی عزت و تکریم کی جانی چاہئے، عمران خان کو ان اہم جگہوں پر نقصانات پر معافی مانگنی چاہئے، دوسری طرف حکومت اپنی کوتاہ اندیشی اور نااہلی پر ملک سے معذرت کرے کہ وہ اس لاوے کے پھٹنے کا کیوں انتظار کرتی رہی، لاوے کا یہ طوفان ابھی پوری طرح پھٹا نہیں وہ توصرف الیکشنز کا کہہ رہا ہے، قوم کا بڑا حصہ 9مئی کے اردگرد ہونے والے واقعات کی وجہ سے پریشان ہے، حالات کو بہتری کی راہ پر کس طرح ڈال سکتے ہیں، ریاست کسی بھی معاشرہ میں ماں کا درجہ رکھتی ہے اور ماں اپنی اولاد کی خاطر آئے دن تکالیف برداشت کرتی ہے، درجن بھر کے قریب لوگوں کو اپنی جان کھونی پڑی ہے، بے شمار اہلکار ہسپتالوں میں پڑے ہیں، اربوں مالیت کا مالی نقصان ہوا ہے اور حالات بہتری کی طرف نہیں بڑھ رہے، عمران خان اور پی ٹی آئی کو الٹا لٹکا دو اور پابندی لگانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، ایسے اقدامات سے تلخیاں مزید بڑھیں گی اور ریاست زیادہ دکھی ہوگی، دوسری طرف قومی مفاد میں عام معافی کی بات کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، معیشت میں استحکام پہنچ سکتا ہے، سیاست روایات کی طرف واپس لوٹ کر ملک کو استحکام دے سکتی ہے جو ملک کیلئے اچھا ہوگا،عام معافی کے مطالبہ میں جان ہے، ذہنی طورافواج پاکستان اور ملک سے ہمدردی رکھنے والوں کیلئے ناسمجھ لوگوں کیلئے اظہار ہمدردی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ عمران خان کیلئے سیاسی طور پر آپشنز کم ہوتے جا رہے ہیں، ان کی پچھلے 11ماہ کی سیاست ناکامیوں کی داستان ہے، دوسری طرف ان کا مقابلہ تجربہ کار اور متحد پی ڈی ایم سے ہے جو اپنے اندرونی اختلافات کو دباتے ہوئے صرف پی ٹی آئی کو ختم کرنے کیلئے بھرپورمحنت کر رہی ہے اور کا میاب بھی ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے مشکل وقت ہے، عمران خان نے اپنی جماعت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے، پی ٹی آئی کو حزب اختلاف کی سیاست کرنے کا بہت ہی محدود تجربہ ہے، اس لئے دبائو آنے پر جماعت کا شیرازہ بکھر جانے کا اندیشہ ہے، قیادت کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے، عمران خان کی ذات میں ہی پی ٹی آئی کا بچائو ہے، جب تک عمران خان پی ٹی آئی کے مرکز میں موجود رہیں گے یہ جماعت پاکستانی سیاست میں ایک موثر آواز کی شکل میں موجود اور پاکستانی سیاست میں ایک تیسری قوت کی ہمیشہ گنجائش موجود رہے گی،ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں فائدہ انہیں ہوگا جو اپنے آپ کو اسٹبلشمنٹ کے قریب لے آئیں گے۔ آج کل مسلم لیگ (ن) اور پی پی دونوں اس اہم ادارے کے قریب تر ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی کے سکڑ جانے اور ان دونوں جماعتوں کے پھیلائو سے ملک کے ایسے طبقات جو مساوات اور بردباری کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں، مایوس ہوکر عملی سیاست سے کنارہ کشی کر سکتے ہیں، اس طرح مڈل کلاس طبقات کی آواز دب کر رہ جائے گی، پی ٹی آئی کس شکل میں برقرار رہتی ہے آئندہ چند ہفتے اہم ہیں، اگلے چند ہفتوں میں عمران خان کے کئی کیسز کے فیصلے بھی ہونے ہیں، امیچیور پالیسیز کی بنا پر ملک کا مقبول ترین سیاسی قائد آج اس جگہ آن کھڑا ہے جہاں تمام بڑی قوتیں اس سے دور بھاگ رہی ہیں۔ عمران خان نے اپنےعدالتی معاملات میں اچھی چھان بین نہیں دکھائی۔ اگر وہ اپنے معاملات کو نیچی پروفائل رکھتے ہوئے تعاون کا ہاتھ بڑھاتے رہتے تو شاید ان کیلئے مشکلات اتنی زیادہ نہ ہوتیں۔ مزاجاً وہ ایک سخت گیر انسان ثابت ہوئے ہیں اور سیاست میں لچک دکھانے کی خصوصیت کئی مشکلات کم کر دینے کی وجہ بنتی ہے۔ پچھلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو دو کروڑ سے زیادہ ووٹ پڑے، میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ریاست پاکستان عمران خان ’’دی انکٹ ڈایامنڈ‘‘ سے وہ کچھ حاصل نہیں کرسکی جس کی اس میگا پرسنلٹی سے توقع کی جاسکتی تھی اور ایسے لوگ ہر دس برس بعد سیاست یا معیشت میں اوپر نہیں آتے۔ خواجہ آصف وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ ’’ہم عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے‘‘،عمران خان کی آج کی مشکلات اس کی اپنی پیدا کردہ اور سچائی کے قریب ہیں، آخری گیند تک کھیلنے والا یہ کھلاڑی ابھی کھیل میں موجود ہے، حکومت ایڈجسٹمنٹ کیلئے حالات پیدا کر ے ، ایک ایسا ماحول جس میں عمران خان بھی دوسری جماعتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر انگیج ہو سکے،عمران خان کو باہر کردینے سے معاشرہ ایک کھلے زخم کی طرح رستا رہے گا اور ایسے زخم اپنے پھیلائو کے ذریعہ پورے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں جو کسی بھی صحت مند معاشرے کیلئے اچھی چیز نہیں ہے،عمران خان کو اپنی طبیعت میں کئی بڑے یوٹرنز لانے کی ضرورت ہے، وہ اپنی کمزور سیاست اور غلط فیصلوں کے باوجودایک غیور اور پاکستان سے محبت کرنے والا عمران خان ہے۔