میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد

October 15, 2023

……علامہ اقبال ……

فلسطین کا زخم دل کا داغ اور سینہ کا چراغ بن چکا ہے۔ شعراء جن کی طبیعتیں حالات سے جلد متاثر ہوتی ہیں، انہوں نے فلسطین کے قبضہ پر بہت سی نظمیں کہی ہیں۔

فلسطین کے قضیہ نے اْردو شاعری پر کیا اثر ڈالا ہے۔علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے عربوں سے مخاطب ہوکر ایک نظم کہی تھی اس کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجہَ یہود میں ہے

سُنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے

……٭٭……٭٭……

فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے

……فیض احمد فیض……

میں جہاں پر بھی گیا ارض وطن

تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے

تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے

تیری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی

تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی

سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا

کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا

دور پردیس کی بے مہر گزر گاہوں میں

اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں

جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم

لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

……٭٭……٭٭……

……فلسطینی بچے کیلیے لوری……

(…فیض احمد فیض…)

مت رو بچے

رو رو کے ابھی

تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچے

کچھ ہی پہلے

تیرے ابا نے

اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچے

تیرا بھائی

اپنے خواب کی تتلی پیچھے

دور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچے

تیری باجی کا

ڈولا پرائے دیس گیا ہے

مت رو بچے

تیرے آنگن میں

مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں

چندرما دفنا کے گئے ہیں

مت رو بچے

امی، ابا، باجی، بھائی

چاند اور سورج

تو گر روئے گا تو یہ سب

اور بھی تجھ کو رلوائیں گے

تو مسکائے گا تو شاید

سارے اک دن بھیس بدل کر

تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

……٭٭……٭٭……

سرِ وادیِ سینا

(…فیض احمد فیض…)

پھر برق فروزاں ہے سر وادئ سینا

پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسار حقیقت

پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت

اے دیدۂ بینا

اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے

اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے

گلزار ارم پرتو صحرائے عدم ہے

پندار جنوں

حوصلۂ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے

پھر برق فروزاں ہے سر وادئ سینا، اے دیدۂ بینا

پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید

مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے

اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہے

تائید ستم مصلحت مفتیٔ دیں ہے

اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے

لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے

……٭٭……٭٭……

یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے...!

فاضل جمیلی

یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے

مقامِ گریہ ،مقامِ مصلوبیت سے بابِ مغاربہ تک

سبھی کے رُوح و بدن شکستہ

سبھی کی پیشانیاں ہیں زخمی

بجائےمرہم ،مگرزمانوں کے تن بدن پر،

غزہ کی پٹی بندھی ہوئی ہے

کوئی محلہ نہیں ہے ایسا

کہ جس میں دیوارِ اجنبیت کا کوہِ ہیکل نہ آ گیا ہو

اے بابِ اسباط کے مکینو!

کبھی جو بابِ دمشق سے ہو گزر تمہارا

تو بابِ صیہون کی قسم ہے

ہماری جانب بھی دیکھ لینا

زمیں سے تاآسماں معلق جو سلسلہ ہے

ہمارے خوابوں سے آ ملا ہے

کبھی جو قبلہ ہوا تمہارا

وہ اب ہمارا بھی قرطبہ ہے

اے شہرِ دائود کے مقدس چراغ دانو!

رہیں تمہاری لویں سلامت

قبول ہو ہر دعائے اقصیٰ

سنائی دے ہر اذان اُونچی

رہے چٹانوں کی شان اُونچی

انہی اذانوں، انہی چٹانوں میں کچھ صدائیں بھی گونجتی ہیں

جو آنے والے ہر اک زمانے سے پوچھتی ہیں

یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے

یہ غم ہی قرنوں سے ہم قدم ہے

توکیا کبھی بھی نہ اب سکینہ ظہور ہو گی؟

تو کیا کبھی بھی یہ بابِ رحمت نہیں کھلے گا؟

……٭٭……٭٭……

نعیم صدیقی نے ’’یروشلم‘‘ کے عنوان سے بہت طویل نظم کہی ہے جس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں:

یروشلم…

نعیم صدیقی

یروشلم یروشلم تو ایک حریم محترم

تیرے ہی سنگ در پر آج منہ کے بل گرے ہیں ہم

تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل بچشم نم

یروشلم یروشلم یروشلم یروشلم

……٭٭……٭٭……

ایک اور شاعر محمد ایوب بسمل کی فلسطین پر ایک طویل نظم کا پہلا بند :

کفر ہے برسرپیکار یہاں برسوں سے

گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے

امن ہے نقش بہ دیوار یہاں برسوں سے

حق عدالت میں سرِدار یہاں برسوں سے

دے گئی تحفہ نایاب تجھے جنگ عظیم

کرگئی ارض مقدس کو بالآخر تقسیم

……٭٭……٭٭……

محمود درویش

فلسطینی شاعر محمود درویش نے ایک نظم اپنی جلا وطنی کے دوران لکھی۔ ذیل میں ملاحظہ کریں:

معدوم ہوتے ہوئے لفظوں کے

درمیان سے گزرنے والو!

تمہاری طرف سے تلوار ،ہماری طرف سے خون

تمہاری طرف سے فولاد، ہماری طرف سے گوشت

تمہاری طرف سے ایک اور ٹینک

ہماری طرف سے پتھر،تمہاری طرف سے آنسو گیس

ہماری طرف سے آنسو اور بارش

ہم پر اور تم پر بھی آسمان

ہمارے لئے اور تمہارے لیے بھی ہوا

اس لئے لے لو ہمارے خون میں سے اپنا حصہ اور چلے جاؤ

جاو ٔچلے جاؤ کسی رقص کی تقریب میں

ہمیں تو آبیاری کرنی ہےپھول کی ، شہیدوں کی

ہم تو ابھی اور زندہ رہنا ہے

جہاں تک ممکن ہو سکے

……٭٭……٭٭……

’’مسجد اقصی‘‘

ادا جعفری

ایسا اندھیرا تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو!

لو چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی

آندھیوں سے کبھی سُورج نہ بُجھا تھا لوگو!

آئینہ اتنا مَکدّر ہو کہ اپنا چہرہ

دیکھنا چاہیں تو اغیار کا دھوکا کھائیں

ریت کے ڈھیر پہ ہو محملِ اَرماں کا گماں

منزلیں کاسۂ دریوزہ گری بن جائیں

قافلے لُٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں

لُوٹنے والوں نے کیا عزمِ سفر بھی لُوٹا؟

دَجلۂ خوُں تو نئی بات نہیں ہے، یہ کہو

وہ جو ڈوُبا ہے، سفینہ ہے کہ ساحل ڈوبا

جادۂ شوق ہے کہ مسجدِ اقصی پہلے

دل بھی قبلہ ہے، یہ قبلہ نہ ڈھہا تھا پہلے

نامناسب تو نہ تھا شعلہ بیاں بھی ہوتے

تم مگر شعلہ بہ دل، شعلہ بہ جاں بھی ہوتے

تم تو خورشید بکف تھے سرِ بازارِ وفا

کیوں حریفِ نگہِ چشمِ تماشا نہ ہوئے

کِس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر

تم تو خوُد اپنے مُقدر کی عَناں تھامے تھے

اِس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوُم نہ تھی

اِس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوُم نہ تھی

رَن سے آتے تھے تو باطبلِ ظفر آتے تھے

ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سر جاتے تھے

مِٹ نہ پائے تھے بگوُلوں سے نقوُشِ کفِ پا

اِن راہوں میں ہیں رسوُلوں کے نقوُشِ کفِ پا

محترم ہے مجھے اِس خاک کا ذرہ ذرہ

ہے یہاں سرورِ کونینؐ کے سجدے کا نشاں

اِس ہوا میں مِرے آقا کے نفس کی خوشبُو

اِس حَرم میں مِرے مولا کی سواری ٹھہری

اِس کی عظمت کی قسم اَرض و سما نے کھائی

تم نے کچھ قبلۂ اوّل کے نگہبان! سُنا؟

حُرمتِ سجدہ گہہِ شاہ کا فرمان سُنا؟

زندگی مرگِ عزیزاں کی تو سَہہ جاتی ہے

مرگِ ناموُس مگر ہے وہ دھکتی بَھٹی

جس میں جل جائے تو خاکسترِ دل بھی نہ مِلے

اور تپ جائے تو کندن ہے وجودِ انساں

پھر یہ پِگھلے ہوئے لمحاتِ کراں تا بہ کراں

آپ مینارۂ انوار میں ڈھل جاتے ہیں

عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں

خار زاروں کو کِسی آبلہ پا کی ہے تلاش

وادیء گل سے ببوُلوں کا خریدار آئے

دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاندار آئے

پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے

ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آجائے

ہوش والو! کوئی تلقینِ جُنوں فرمائے