نظام انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہر کسی کو مقدمے کی جلد سماعت کا حق ملنا چاہیے، یاسمین قریشی MP

May 20, 2024

گریٹر مانچسٹر/ بولٹن( ابرار حسین) بولٹن سے پاکستان نژاد رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے کہا ہے کہ ہمارا نظام انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکومت کی جانب سے کیا جانے والا اعلان ہمارے نظام انصاف کے لیے’’ آپریشن ارلی ڈان‘‘ کا آغاز چونکا دینے والا ہے لیکن حیران کن نہیں اس لئےکہ’’ آپریشن ارلی ڈان‘‘ ایک ہنگامی اقدام ہے جس کے تحت ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ایک اضافی رات کے لیے پولیس کی تحویل میں رکھا جا سکتا ہے کیونکہ جیلیں بھری ہوئی ہیں حکومت کے استدلال کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری جیلیں بھری ہوئی ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ’آپریشن ارلی ڈان‘ صرف ایسے ہی حالات میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک سابق بیرسٹر کی حیثیت سے انہوں نے ملک کے کچھ انتہائی پیچیدہ مقدمات کی پیروی کی ہے اور جسٹس سلیکٹ کمیٹی کے نئے مقرر کردہ ممبر کے طور پر، انہیں اس بات کا فرسٹ ہینڈ تجربہ ہے کہ فوجداری نظام انصاف کیسے کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سسٹم میں کام کرنے والے اپنی سابقہ ​​ہم عصروں سے بھی بات کرتی ہیں جن میں کلرک، جیل افسران، بیرسٹر اور پروبیشن آفیسرز شامل ہیں جو سب اس بات سے متفق ہیں کہ ہمارا نظام عدل ایک اہم موڑ پر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ باقاعدگی سے ایسے واقعات سنتی ہیں کہ قیدیوں کو پولیس کی گاڑیوں میں اِدھر اُدھر لے جایا جاتا ہے کیونکہ انہیں رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے سنا ہے کہ پرتشدد جرائم کے لیے بھی عدالتی سماعتوں میں مہینوں اور بعض اوقات سال میں تاخیر ہوتی ہے۔۔ ایسے بہت سے لوگوں کو عدالت کا رخ کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے کہ مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے اور متاثرین مکر جاتے ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ انہوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ ہر کسی کو جلد از جلد مقدمے کی سماعت کا حق ملنا چاہے تاہم عوام ایسے نظام کو برداشت نہیں کر یں گے جہاں لوگوں کو مہینوں یا برسوں تک انتظار کرنے کے باوجود ملے تاریخ پہ تاریخ اور انہیں انصاف کہلیے ایک طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑے یہ مبینہ متاثرین اور مبینہ مجرموں کے لیے درست چیز ہے۔ کہانیوں کو ڈیٹا کے ذریعہ بیک اپ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال گریٹر مانچسٹر میں 3867 کیسز باقی تھے۔ یاسمین قریشی نے کہا ہے کہ انہوں نے حکومتی وزراء کے ساتھ بار بار یہ اعداد و شمار اٹھائے اور کارروائی کا مطالبہ کیا لیکن حالات مزید خراب ہوتے گئے سنجیدہ اصلاحات اور سرمایہ کاری کے ساتھ سخت مداخلت کے بغیر، وہ توقع کرتی ہیں کہ اس سال کے آخر تک بقایا کیسز کی تعداد 4000 سے زائد نہ پینچ پائے ۔اب ہمارے پاس ملک بھر میں 16000 افراد زیر حراست ہیں جو مقدمات کی سماعت کے منتظر ہیں۔ آپریشن ارلی ڈان فوجداری انصاف میں سرمایہ کاری کی دائمی کمی کی علامت ہے۔ ایسی صورتحال کو اس طرح سے جاری نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ حکومت انصاف کو روک رہی ہے اور متاثرین کو ان کے پیدا کردہ گڑبڑ کی وجہ سے بے حال چھوڑ رہی ہے۔ انصاف کا نظام ہمیشہ ایک متوازن عمل ہوتا ہے۔ حکومت تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمیں بحالی کے ایک مضبوط پروگرام اور ان لوگوں کو دوبارہ مربوط کرنے کے لیے حقیقی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو اب معاشرے کے لیے خطرہ نہیں ہیں اگرچہ ہمیں سنگین پرتشدد مجرموں کو رکھنے کے لیے جیلوں میں مزید گنجائش پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے جبکہ حکومت گزشتہ 14 سال میں ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس گڑبڑ کو ختم کرنے کے لیے کچھ حقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ آنے والے مہینوں میں جسٹس سلیکٹ کمیٹی میں اس پر توجہ مرکوز کریں گی۔