• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ہارون نعیم مرزا…مانچسٹر
پاکستان کے حالیہ بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں پر بھی مہنگائی کا بم پھوڑ دیاگیا ہے۔ حالیہ بجٹ کو حکومتی اکابرین نے تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے جس میں پاکستان کے متوسط طبقہ کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ہے ،وہاں اوورسیز پاکستانیوں کو آسان ترین شکار سمجھ کر دبوچ لیا گیا ہے ۔ اسمبلی میں عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کو حل کر یں جس میں وہ بری طرح ناکام رہے ہیں حالیہ بجٹ جسے قومی اسمبلی میں منظور کرا لیاگیا ہے، میں بین الاقوامی سفر کیلئے ٹکٹوں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی شق منظور کر لی گئی ہے یکم جولائی سے بین الاقوامی سفر کیلئے اکانومی اور اکانومی پلس ٹکٹ پر 12ہزار500 اضافی ٹیکس دینا ہوگا جب کہ اسی طرح یکم جولائی سے امریکہ اور کینیڈا کیلئے بزنس کلاس اورکلب کلاس ٹکٹ پر ایک لاکھ روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگاجب کہ یورپ کیلئے یکم جولائی سے بزنس کلاس اور کلب کلاس کے ٹکٹ پر 60ہزار روپے اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے ، یورپ کے فضائی سفر کیلئے بزنس، فرسٹ اورکلب کلاس پر 2لاکھ 10ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا‘نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ٹکٹ پر بزنس کلاس اورکلب کلاس پر 60ہزار روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا، دبئی ،سعودیہ سمیت مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کے بزنس اورکلب کلاس کی ٹکٹ پر30ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، اس سے قبل کسی مشیر نے اوورسیز پاکستانیوں کو موبائل فونز وطن لانے پر ٹیکس عائد کر دیا ،اوورسیز پاکستانی اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کو موبائل تحفہ میں دے کر ان کی فرمائش پوری کرتے تھے ماضی اورموجودہ حکومتوں نے ہمیشہ اوورسیز پاکستانیوں اپنا آسان تریں ہدف قرار دیا اور ان کا بے رحمانہ طریقے سے شکار کیا، وطن واپس لوٹنے پر کسٹم حکام رہی سہی کسر پوری کر دیتے ہیں جب کہ واپس لوٹنے پر امیگریشن حکام جعلی سفری دستاویزات کا الزام عائد کر کے بھاری بھر کم رشوت دینے پر مجبورکر دیتے ہیں،کوئی بھی حکومت برسر اقتدار آتی ہے تو یہی رونا رویا جاتا ہے کہ سابقہ حکومت نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے ،خزانہ خالی ہے، لہذا قوم اس مرتبہ مہنگائی اورٹیکسز کا بوجھ برداشت کر لے بہت جلد اچھے دن آنے والے ہیں، ماضی کے جمہوری ادوار سے لے کر اب تک تمام حکومتوں نے عوام پر مہنگائی اورٹیکسز کی بھرمار کر دی ، بجلی کا مین ٹیرف میں ہر ماہ اضافہ کر دیا جاتا ہے ،پیٹرول پر لیوی کی مد میں اضافہ کر کے بجٹ کا خسارہ کم کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے ، ہر وہ طریقہ آزمایا جاتا ہے جس سے عوام کے منہ سے نوالہ چھین لیا جائے ، موجودہ اورسابقہ حکومتوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیا مگر اس ریڑ ھ کی ہڈی پر اس قدر ضربیں لگائی جارہی ہیں کہ اب اوورسیز پاکستانیوں کی کمر سیدھی نہیں ہو پا رہی ، پردیس میں رہنے والوں کو کوئی پوچھے کہ وہ اپنے عزیز واقارب سے دور کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ماضی میں عرب ممالک کی ائر لائنز سے ملی بھگت کر کے قومی ائر لائن پر الزامات لگا کر پابندی لگوا دی گئی ، براہ راست ملک واپس جانے والوں کو بھی عرب ممالک کی ائر لائنز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ، دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں جسکے شہریوں کو براہ راست آنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوورسیز پاکستانیوں کو پہلے 5سال بعد ایک گاڑی گفٹ سکیم کے تحت لانیکی اجازت تھی ہمسائیہ ملک میں گاڑیاں انتہائی سستی ہیں مگر پاکستان میں گاڑیاں اس قدر مہنگی ہیں کہ کوئی خریدنے کا تصور نہیں کر سکتا،انہیں ووٹ کا حق دینے اورپارلیمنٹ میں سیٹیں اپنے منشورمیں شامل کرنیوالے آج تک اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے ، اب ان کے سفر پر بھی ناقابل برداشت ٹیکس عائد کر کے انہیں احتجاج پر مجبورکر دیا گیا ہے قرضے حکومتیں لیتی ہیں اور انہیں اپنی عیاشی پر صرف کر دیتی ہے، اس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے یہ کہاں کا اصول ہے کہ قرضے وہ لیں اور اتارے عوام، یہ ناممکن ہے، موجودہ حکومت اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ انہوں نے اوور سیز پاکستانیوں کے ساتھ کس قسم کے وعدے کیے اور انہیں کون سا خواب دکھایا تھا ان کا ایک بھی خواب پورا نہیں ہو سکا اوور سیز وزارت اس لیے قائم کی گئی تھی کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے بارے میں حکومت کو آگاہ کریں مگر 100 دن گزرنے کے باوجود ان کی کارکردگی میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہوا ،او پی ایف بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
یورپ سے سے مزید