امتحان سر پر ہیں۔۔۔ رٹا لگانے سے بہتر ہے، لکھ کر ذہن نشین کریں

March 10, 2018

پروفیسر شاداب احمد صدیقی، حیدر آباد

اظہار و بیان کی صلاحیت کسی نعمت سے کم نہیںہے۔ اظہار کے دوبنیادی ذرائع ہیں ، تقریر اورتحریر،تقریر کے مقابلے میں تحریر کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس لیے کہ وہ زیادہ مستند ،اس کے اثرات دور رس اور دیرپا ہوتے ہیں، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ لکھ سکتا ہے اور وہ اس میدان میں طبع آزمائی بھی کرتا رہتاہے، اس کے لیےیہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنی لکھنے کی صلاحیت میں بہتری کیسے لاسکتا ہے۔ جیتنے کی اُمنگ، سیکھنے کا جذبہ اور دوسروں سے آگے بڑھنے کا عزم ، ہمیں اس وقت ضرور قلم کو جنبش اور صلاحیت کو آزمانے کی دعوت دیتا ہے، جب ہماری نظر کسی تحریری مقابلے کے عنوان اور اعلان پر پڑتی ہیں۔

کسی متعین موضوع پر اپنے خیالات و جذبات اور احساسات کا تحریری اظہار مضمون کہلاتا ہے۔ مضمون کےلئے موضوع کی کوئی قید نہیںہوتی۔ دنیا کے ہر معاملے ، مسئلے یا موضوع پر مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے مضمون نویسی کا فن تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے جس کے ذریعے کسی بھی موضوع یا عنوان کے تحت لوگ اپنی رائے اور حقائق عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں،جب بھی قلم اٹھانے لگیں ،تو یہ ضرور سوچ لیں کہ آپ کی لکھی گئی تحریر دوسروں پر بہت گہرا اثر ڈالے گی ، لہٰذا تحریر میں کوئی ایسی بات مت لکھیں جس پر بعد میں آپ کو ندامت ہو۔ مضمون نگاری باقاعدہ ایک صنف ِادب وفن ہے۔

امتحانات میں اس کی اہمیت بھی قدرے زیادہ ہے، کیوں کہ طلباء کو پرچہ جات میں مضمون لکھنےہوتے ہیں۔ اس میں جہاں موضوع اور زبان کی سلاست و روانی کا خیال رکھنا ضروری ہے ،وہاں تکرار الفاظ جیسی قباحت سے بچنا بھی انتہائی اہم ہے۔

کچھ طالب علم یہ سمجھتے ہیں کہ اردو میں مضمون لکھنا بہت مشکل ہے ، اسی لیے وہ رٹا لگالیتے ہیں، لیکن ، اگر امتحان میں ان کا یاد کیا ہو امضمون نہیں آتا، تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں، جس کا اثر ان کے نمبروں پر بھی پڑتا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ مضمون نگاری سیکھ لی جائےاور رٹا لگانے سے گریز کیا جائے، اس کا فائدہ صرف امتحان کے دنوں ہی میں نہیں ہوگا بلکہ زندگی بھر یہ ہنر آپ کے کام آئے گا۔

دیگر چیزوں طرح مضمون تحریر کرنے کے بھی کچھ زریں اصول و قواعد ہیں۔ اگر ان اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، تو بہتر مضمون لکھاجا سکتا ہے۔مضمون لکھنے کے لیے جس موضوع کا انتخاب کریں، اس کے بارے میں مختلف ذرائع سے مواد اکٹھا کرلیں۔ اخبارات میں یا انٹرنیٹ پر اس موضوع پر شائع شدہ تحریروں کے تراشوں سے، یا متعلقہ کتابوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے،جدید اصطلاح میں اسے لٹریچر سروے کہتے ہیں۔

لکھنے سے قبل معلومات جمع کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھئے کہ وہ مستند ہوں،جو کچھ لکھنا ہے اس کا پہلے سے ایک خاکہ تیار کرلیجئے، کہ کس ترتیب سے مضمون لکھنا ہے، ایک عمدہ مضمون لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام خیالات اور اہم نکات ، جو آپ مضمون میں شامل کرنا چاہتے ہیں، ایک صفحے پر لکھ لئے جائیں۔

ہر خیال کو اہمیت اور ترجیح کی بنیاد پر ترتیب دیا جائے۔ مضمون تحریر کرنا صرف اسی وقت شروع کریں جب آپ کے پاس موضوع کے ہر پہلو پر تمام ضروری معلومات ہوں۔ اگر مضمون لکھنا ہے تو ہمیشہ ایسا عنوان رکھیں جو پہلے کسی نے نہ پڑھا ہو کیونکہ لوگ ہمیشہ وہی چیز پڑھتے ہیں جو نئی اور منفرد ہو نئے مسائل واضح کریں کیونکہ مضمون پڑھنے والے دلچسپی لیں گے۔

عموماً کسی بھی مضمون کے بنیادی حصے ،تمہید، متن ور اختتامیہ ہوتے ہیں۔ یہ حصے کسی بھی مضمون کو چار چاند لگاتے ہیں۔

تمہید

یہ مضمون کا ابتدائی حصہ ہوتاہے۔ اچھی تمہید کے لیےضروری ہے کہ وہ دل چسپ ،مختصر اور جامع ہو ،اس میں دل چسپی کے تمام عناصر موجود ہوں۔ تاکہ پڑھنے والا مضمون کے ابتدائی جملوں کو پڑھ کر ان میں ایسی کشش محسوس کرےکہ پورا مضمون پڑھےبغیر نہ رہ سکے۔ اگر مضمون کا پہلا تاثر ہی اچھا نہیں ہوگا، تو اس میں قاری کی دلچسپی بھی پیدا نہیں ہوسکے گی۔

اکثر نوجوان اپنا بیشتر وقت مضمون کے مناسب آغاز کو سوچتے ہوئے گزار دیتے ہیں، اسی پریشانی میں وہ بے ربط جملوں سے مضمون کا آغاز کردیتے ہیں،جس سے قاری پر اچھا تاثر نہیں پڑتا، نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مضمون کا آغاز یا تو انگریزی محاورے کے ترجمے سے کریں، یا کسی شاعر کے مصرعے ، شعر یا کسی فلسفی اور مفکر کے قول سے، یا کسی ایسے فقرے سے جو اپنے موثر پن اور انفرادیت کی بدولت قاری کو اپنی گرفت میں لے لے، مضمون کے آغاز میں تمہیدی جملے اس طرح کے ہونے چاہئیں کہ ان کا نفس مضمون سے گہرا تعلق ہو، مضمون میں بلا ضرورت لفاظی اور ثقیل جملوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہئے، کیوں کہ ان سے عبارت کے معانی میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔

جس عنوان پر بھی لکھنا ہو، اس کے پس منظر کو پہلے بیان کریں تاکہ قاری کو اس کے بارے میں بہتر معلومات حاصل ہوسکیں، وہ اس کی غرض وہ غایت کو اچھی طرح جان سکے، دور حاضر میں مضمون نگار عموماً بیانیہ قسم کے مضامین کا پہلے پس منظر بیان کرتے ہیں اور پھر اس پر طبع آزمائی کرتے ہیں، جب کہ کچھ مضمون نگار اپنے مضامین مں انفرادیت پیدا کرنے کے لئے ایسے ایسے انوکھے اور چونکا دینے والے جملے لکھتے ہیں کہ وہ فوراً قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں ۔

متن

یہ وہ حصہ ہے جس میں تعارف کی بنیاد پر موضوع کو بیان کیا جاتا ہے، دراصل یہ حصہ مضمون کی روح کہلاتا ہے۔ اس میں متعلقہ مواد کو نہایت عمدہ ترتیب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں موضوع کے حق اور مخالفت میں تمام دلائل کو پیش کرکے مضمون نگار اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ اس حصے میں کسی قسم کے ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

مضمون کے اس حصے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں موضوع سے متعلقہ ضروری معلومات اور دلائل کو بغیر کسی تکرار کے اس طرح پیش کردیا جائے کہ تشنگی کا احساس باقی نہ رہے اور مصنف کا نقطہ نظر واضح ہو کر سامنے آجائے۔ اچھی تحریر وہی ہوتی ہے جو موضوع کے مطابق ہو۔

کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس حصے میں الفاظ یا جملوں میں کسی قسم کی تکرار نہ ہو۔ جملوں میں تکرار کے سب قاری کی توجہ کوزائل کرنے کا سبب ممکن ہے لہٰذا اس سے پرہیز ضروری ہے۔ مواد عمدگی اور موضوع کے عین مطابق پیش کیا جانا چاہئے تاکہ موضوع اپنی مضبوطی قائم رکھے ۔ کوشش کی جائے کہ مضمون میں ہر نئی بات نئے پیراگراف اور نئی لائن سے شروع کریں۔

کسی بھی مضمون میں سرخیاں یا عنوانات بڑی اہمیت رکھتی ہیں اس لئے سرخی جاندار ہونی چاہئے۔وہ کوئی ادبی میگزین ہے یا وہ کوئی مذہبی، سائنسی، اسپورٹس، فلمی یا جنرل میگزین یا روزنامہ کا صفحہ ہے غرض کہ اخبار و رسائل کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے لکھیں۔اتنی بات یاد رکھیں کہ آپ دوسروں کے لکھے ہوئے مضامین پڑھ کر یاد کر لینے سے اچھے مضمون نگار نہیں بن سکتے، اس کے لیے مطالعےاور مشق کی ضرورت ہے۔ کوشش کریں کہ آپ ہر موضوع پر خود لکھ سکیں۔

نوجوانو! پہلے مطالعہ کی طرف توجّہ دو ،کتابوں کو سنجیدگی سے پڑھنے کی عادت ڈالیں تب کہیں جا کر اچھی تحریر جنم لیتی ہے۔ زبردستی مصنف بننے کی کوشش کسی کو نہیں کرنا چاہئے۔ آج کل اکثر نوجوان لکھنے کے شوقین ہوتے ہیں،لیکن مطالعہ نہیں کرتے۔ اس احساس ذمےداری کے ساتھ لکھیں کہ آپ کے پاس واقعی کوئی میسج ہے جو آپ کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ لکھا ہوا لفظ بہت دور تک جاتا ہے۔

نوجوان دوستو! ہم سب میں تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں، بس انہیں تراشنے کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ اور لکھنے سے انسانی ذہنی صلاحیتیں بڑھتی ہیں۔ ایک اچھا لکھنے والا ایک اچھا مقرر بھی بن سکتا ہے ،کیوں کہ اس کے پاس معلومات کا خزانہ اور بہترین تحریری مواد ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا مضمون نگاری سے براہ راست گہرا تعلق ہے، اس فن کے ذریعے ہمارے باصلاحیت نوجوان اپنے اردگرد معاشرتی مسائل کو اپنی تحریروں خاص طور پر مضامین کے ذریعے آگاہ کر سکتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں پر ایک بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں، مضامین کے ذریعے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں قومی سالمیت اور قومی یکجہتی کا تصوّر پیدا کریں اور صوبائی اور علاقائی تعصّب کی لعنت کو ذہنوں سے نکال پھینکیں۔