ادب پارے: بابائے اردو مولوی عبدالحق

August 15, 2018

ایک دفعہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک بے تکلف دوست نے ان سے استفسار کیا: ’’مولوی صاحب! آپ خاصی عمر گزار چکے ہیں، لیکن آپ نے اب تک شادی نہیں کی، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ مولوی صاحب نے مسکرا جواب دیا ’’میرے بھائی! میری شادی کو تو طویل عرصہ گزر چکا ہے۔‘‘ دوست سخت حیرت زدہ ہوا اور بولا: ’’آپ کی شادی کب ہوئی، کس سے اور کہاں ہوئی؟‘‘ مولوی صاحب نے اپنے دوست کو کان قریب کرنے کے لیے کہا اور جب ان کا دوست جھکا تو مولوی صاحب نے اس کے کان میں کہا: ’’میری شادی اُردو سے ہوچکی ہے اور اُردو ہی میری دلہن ہے۔‘‘

٭…٭…٭

مولوی عبدالحق نے اپنے ایک مضمون ’’آئی سی ایس‘‘ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ایک کالا انگریز اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اس کے والد کمرے میں بے تکلفانہ چلے آئے۔ ان کی دیہاتی وضع قطع ایسی تھی کہ صاحب بہادر کو اپنے دوست کے سامنے انہیں اپنا والد بتاتے ہوئے شرم آئی، لہٰذا یہ کہہ تعارف کروایا ’’یہ میرے والد کے ایک دوست ہیں۔‘‘ والد محترم کو غصہ آگیا، انہوں نے بیٹے کے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’میں ان کے والد کا نہیں، والدہ کا دوست ہوں۔‘‘

٭…٭…٭

بابائے اُردو مولوی عبدالحق ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے کہ ڈبے میں بیٹھے ہوئے کسی مغرب زدہ شخص نے ان سے کہا : ’’کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘

مولوی عبدالحق نے جواب دیا:

’’جی ہاں! پوچھ سکتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد دونوں خاموش ہوگئے اور بات آئی گئی ہوگئی۔ بعد میں مولوی صاحب کے کسی عقیدت مند نے ان سے دریافت کیا ’’مولوی صاحب! آخر آپ نے اپنا نام انہیں کیوں نہیں بتایا تھا؟‘‘

مولوی صاحب نے فرمایا:

’’صاحب! گفتگو کا یہ کیا انداز ہوا؟ ہماری زبان میں اس طرح نہیں کہتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ ’’آپ کا اسم شریف یا جناب کا نام؟‘‘

اِن صاحب نے اپنی روایات کو سمجھے بغیر انگریزی کے اس جملے کا محض لفظی ترجمہ کردیا کہ:

ـ"May I know your name" اور جتنی بات انہوں نے پوچھی، میں نے اس کا جواب دے دیا۔‘‘

٭…٭…٭

جب مولوی عبدالحق، اورنگ آباد سے انجمن ترقی اردو کا دفتر دہلی لے آئے تو شیخ محمد اسماعیل پانی پتی اُن سے دریا گنج میں ملے اور کہا ’’اگر پانی پت میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے کوئی جلسہ کیا جائے تو کیا آپ تشریف لے آئیں گے؟‘‘

مولوی صاحب فرمایا ’’اگر جہنم میں بھی اُردو کی حمایت اور نصرت میں کوئی جلسہ منعقد ہو تو میں وہاں بھی خوشی سے جانے کو موجود ہوں۔‘‘

٭…٭…٭

ایک مرتبہ مہاتما گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ 125برس تک زندہ رہیں گے۔ اس پر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انہیں ایک خط لکھا کہ میری بھی دلی دعا یہی ہے کہ آپ 125برس تک زندہ رہیں تاکہ آپ نے اب تک جو غلطیاں کی ہیں، ان کی تلافی کے لیے مناسب وقت مل سکے۔‘‘

٭…٭…٭

اُردو ادیبوں کی ایک محفل میں مولوی عبدالحق کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کھانا کھاتے کھاتے اپنی انگلیاں چاٹنے لگے، مولوی صاحب کو اس سے بہت کوفت ہوئی، جب وہ چٹخارے لے کر انگلیاں چاٹ چکے تو مولانا نے اپنا ہاتھ اُن کی طرف بڑھایا، اگلیاں ان کے منہ کے قریب لاکر کہنے لگے:

’’لیجئے حضرت! اب انہیں بھی صاف کردیجئے۔‘‘