7 ستمبر 1974ء ’یومِ تحفظ ختمِ نبوت‘

September 07, 2019

مفتی خالد محمود

چھ ستمبر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، یہ دن اہتمام سے یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے ،اس دن جب رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں میں داخل ہوئی تو ہماری فوج کے بہادر جوانوں نے پامردی سے ان کا مقابلہ کیا ،بہت سوں نے داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ،اللہ کے ان شیروں نے اپنے خون سے شجاعت و بہادری کی ایسی لازوال اور عدیم النظیر داستانیںرقم کیں جو رہتی دنیا تک اُفق پر چمکتی رہیں گے ،انہی قربانیوں کے صلے میں انہیں تمغہ شجاعت اور نشان حیدر عطاہوا ۔ اس طرح ان بہادر جیالوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی، آج انڈیانےپھر اپنی فوجیں سرحدوں پر جمع کی ہوئی ہیں ،آئے دن اس کی طرف سے چھیڑ خانی اور سرحدی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے ، کشمیری مسلمانوں کا محاصرہ کرکے ، انہیں ان کے گھروں میں نظر بند کرکے ان پر ظلم وستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے، ایسے میں آج پھر 1965ء کے جذبہ جہاد کی ضرورت ہے، اگر آج حکومت کوئی فیصلہ کرے ، فوج کوئی قدم اٹھائے تو پوری قوم ایک آواز بن کر اسی جذبہ کے ساتھ حکومت و فوج کا ساتھ دینے کےلیے تیارہے۔

جب طویل اور تاریخ ساز جدو جہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نےمتفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا

بہر حال چھ ستمبر کو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہوا۔ چھ ستمبر کی طرح سات ستمبر بھی ملک کی تاریخ کا اہم ترین بلکہ عظیم ترین دن ہے ،یہ دن صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے،اس سے حضور ﷺ کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا۔اس دن آنحضرتﷺ کی عزت وناموس کا جھنڈابلند ہوا۔ اس دن آپ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے ذلیل و رسوا ہوئے ،آپ کی رادئے ختم نبوت کو چوری کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے ، حضور اکرم ﷺ کے تاج ختم نبوت کو چھیننے والے خائب و خاسر ہوئے ،اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ اور پوری قوم نے مل کر مرزا ئی اور قادیانیوں کو جسد ملت اسلامیہ سے کاٹ کر علیحدہ کردیا اور انہیں آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دےدیا گیا ، اس پر صرف پوری پاکستانی قوم نے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ نے سجدہ شکر ادا کیا ،کیوں کہ قادیانیت کے تعفن اور اس کی سڑھاند نے پوری امت مسلم کو بے چین اور مضطرب کیا ہوا تھا ۔

اس تاریخی اورعظمت کے حامل دن کو تو چاہئے تھا کہ پوری قوم ملکی اور سرکاری سطح پر مناتی، اس کے لیے مجالس منعقد کی جاتیں،پروگرام ہوتے،شکرانے کے نوافل اداکئے جاتے اور آئندہ کے لیے اس فتنے اور اس طرح کے دیگر فتنوں سے تحفظ کی دعائیں بھی مانگی جاتیں اور ان سے بچنے ،خصوصاً نسل نو کو اِن سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی تدابیر سوچی جاتیں اور اس کے مطابق عملی اقدامات کئے جاتے، زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں ،مگر یہ دن آتا ہے اور گز ر جاتا ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنا اہم اور عظیم دن گزرگیا اور ہم سے مطالبہ کرگیا ۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی بے حسی کی علامت ہے ۔

7 ستمبر 1974 ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا۔ یہ فیصلہ یوںہی بیٹھے بٹھائے نہیں کردیا گیا ،بلکہ مکمل غور و خوض اور بحث و مباحثہ ، سوال و جواب کے بعد ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد کیا گیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ 29 مئی 1974 کو ربوہ اسٹیشن پر قادیانی گماشتوں نے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو زد و کوب کیا ، جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایسی جاندار منظم مگرپُر امن تحریک چلی کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ پوری قوم کراچی سے لےکر شمالی علاقہ جات تک ،بولان سے درہ خیبر تک متحد تھی اور ایک آواز تھی ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔ اس تحریک کے نتیجے میں حکومت مجبورہوئی اور اس نے قومی اسمبلی کے تمام امور روک کر اسے ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دیتے ہوئے یہ مسئلہ اس کے سپرد کیا کہ اس پر مکمل غور و خوض کے بعد یہ کمیٹی اپنی سفارشات پیش کرے۔

قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلے پر بحث شروع ہوئی، قادیانی اور لاہوری گروپ دونوں نے اپنی خواہش اور درخواست پر اپنے محضر نامے قومی اسمبلی میں علیحدہ علیحدہ پیش کیے، ان کے جواب میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی ’’قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف ‘‘ کے نام سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا۔ لاہوری، قادیانی محضر نامے کا شق وار جواب کی سعادت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ کے حصے میں آئی اور انہوں نے علیحدہ علیحدہ مستقل دونوں محضر ناموں کے جوابات تحریری طور پر اسمبلی میں پیش کیے۔ قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف پیش نہیں کیا، بلکہ انہیں زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا، چناںچہ قادیانی گروپ کی طرف سے قادیانیوں کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں پیش ہوا، 5 سے 10 اگست اور 20سے 24 اگست تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد کا بیان، اس سے سوالات و جوابات اور اس پر جرح ہوئی۔ ان گیارہ دنوں میں 42 گھنٹے مرزا ناصر پر جرح ہوئی۔ لاہوری پارٹی کی طرف سے ان کے سربراہ مسٹر صدر الدین پیش ہوئے۔ 27،28اگست کو ان کا بیان ہوا اور ان پر 7گھنٹے جرح ہوئی، صدر الدین چوں کہ کافی بوڑھے تھے، پوری طرح بات بھی سننے کی قوت نہیں رکھتے تھے ،اس لیے ان کا بیان میاں عبد المنان عمر کے وسیلے سے ہوا۔

گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو متعین کیا گیا، انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلے میں معاونت کی اور بڑی محنت و جاںفشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے اور وہ سوالات کرتے تھے، اس سلسلے میں مفتی محمود، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی۔

بالآخر پوری جرح، بیانات اور غورو خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے ،چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیاگیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے تقریر کی ۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا، اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔

ایک بات ذہن میں رہے کہ بڑے زور و شور سے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کے اسلام اور کفر کا فیصلہ کرے ، یہ کہنا بالکل درست ہے، لیکن یہاں قومی اسمبلی نے انہیں کافر قرار نہیں دیا اور نہ ہی کوئی شخص کسی کے کفر واسلام کا فیصلہ کرسکتا ہے ، اسلام و کفر کا فیصلہ اس کے نظریات اور عقائد کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ آیا یہ شخص اسلام کے مسلمہ اصولوں اور بنیادی عقائد کو مانتا ہے یا نہیں؟قادیانی اور مرزائی چونکہ حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں، اس لئے وہ مسلمان نہیں، کیونکہ ختم نبوت کا عقیدہ ’’اسلام ‘‘کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ ختم نبوت کا عقیدہ ایسا مضبوط اور لافانی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی بے شمار آیات اور حضور اکرمﷺ کی متواتر احادیث اس عقیدے کو بیان کرتی ہیں ، امت کا پہلا اجماع بھی اسی عقیدے پر ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ روز اول سے آج تک امت مسلمہ اس میں کبھی دو رائے کی شکار نہیں ہوئی، ہر دور میں جھوٹے مدعی نبوت کو کذاب و دجال قرادیا گیا اور ایسے شخص اور اس کے ماننے والوں کو کبھی بھی امت مسلمہ کا حصہ نہیں سمجھاگیا۔

مرزاغلام احمد نے جب جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچایا تو اسی وقت سے علمائے امت نے اس کا تعاقب کیا، اس کے کفر کو امت پر ظاہر کیا،مرزا کے دعوے سامنے آتے ہی متفقہ طور پر اس کے کفر کا فتوی دیا۔ 1953 کے آئین میں غور کرنے کے لیے تمام مکاتب فکر کا جو نمائندہ اجلاس ہوا ۔ اس میں بھی علماء نے دستور میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر اس کے لیے اسمبلی میں ایک نشست مخصوص کردی جائے۔اپریل ۱۹۷۴ء میں مکہ مکرمہ میں اجتماع ہوا جس میں مراکش سے انڈونیشیا تک مسلم آبادیوں کی ۱۶۶ تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے،انہوں نے بھی بالاتفاق قرار داد منظور کرتے ہوئے قادیانیوں کو کافر قرار دیا یہ ایک طرح سے پوری امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق تھا، بہت سی عدالتوں نے قادیانیوں کے کفر کے فیصلے دیے۔

قادیانی اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اپنے وجود کے اول دن سے ہی اسلام سے خارج تھے، قومی اسمبلی نے انہیں کافر قرار نہیں دیا، ہاں قومی اسمبلی نے ان کے افکار و نظریات ، عقائد و خیالات کو دیکھتے ہوئے ان کی آئینی حیثیت متعین کی کہ وہ دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک اقلیت ہیں۔آج یہ شور مچاتے ہیں کہ ہم اس آئین کو کیسے تسلیم کریں جس میںہماری نفی کی گئی ہے ،یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس آئین نے تو انہیں ایک حیثیت دی ہے، ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ اس ترمیم سے پہلے انہیں اپنا کوئی وجود نہیں تھا، نہ وہ مسلمانوں میں شامل تھے نہ دیگر اقلیتوں میں۔ آئین نے ان کی ایک حیثیت متعین کرکے نہ صرف یہ کہ ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، بلکہ انہیں آئینی طور پر حقوق دئیے ہیں کہ وہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔ دوسری اقلیتوں کی طرح ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، وہ غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں، غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے انتخاب لڑسکتے ہیں ، دیگر اقلیتوں کی طرح اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں، آئین انہیں یہ سارے حقوق دیتا ہے ،بشرطیکہ وہ آئین کو تسلیم کریں۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر مرزا غلام احمد کے پیروکاروں ، مرزائیوں اور قادیانیوں نے ایک خودساختہ نئے نبی کی اتباع کرکے، نئی نبوت اور نئے مذہب کو مان کر اپنا راستہ خود علیحدہ اور مسلمانوں سے خود جدا کرلیا ہے، کیوں کہ ایک نئے نبی کو مان کر وہ خود مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم، اور ایک نئی امت بن چکے ہیں۔کیوں کہ ہر نبی کے ماننے والے اس کی امت ہوتے ہیں، نبی کے بدلنے سے امت بدل جایا کرتی ہے ،یہ ایک منطقی اصول اور فطری تقاضا ہے۔

آج اس روئے زمین پر آسمانی مذہب اور نبی کے ماننے والے مسلمانوں کے علاوہ دو اور قومیں موجود ہیں، ایک یہودی ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں ، دوسرے عیسائی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں اور مسلمان حضور اکرمﷺ کو مانتے ہیں، یہ تینوں مذہبی اعتبار سے علیحدہ علیحدہ قوم شمار ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی قوم اور اپنے نبی کی امت دوسری قوم و امت کو اپنے ساتھ ملانے اور اپنی قوم و امت میں شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ، یہودی عیسائیوں اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ اس لیے شمار نہیں کرتے کہ عیسائی حضرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں اور مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سرکارِ دو عالم حضرت محمدﷺ کو بھی مانتے ہیں۔ اسی طرح عیسائی حضرات مسلمانوں کو اپنا حصہ بتانے اور اپنے ساتھ شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ،کیوں کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضور اکرمﷺ کو بھی مانتے ہیں۔اسی طرح عیسائی اپنے ساتھ یہودیوں کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے اور مسلمان اپنے ساتھ یہودیوں ، عیسائیوں کو شامل کرنے پر آمادہ نہیں ،کیوں کہ وہ آنحضرتﷺ کو نہیں مانتے۔ اور پوری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنے اپنے نبی کو ماننے کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں، کوئی یہودی کو عیسائی یا مسلمان نہیں کہتا نہ کسی عیسائی کو یہودی یا مسلمان تسلیم کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر نبی کے ماننے والے علیحدہ قوم اور امت ہیں اور نئے نبی کے ماننے سے امت تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔

یہاں کوئی یہ اشکال نہ کرے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل بہت سے انبیاء آئے، ان سب کا مذہب یہودی تھا۔ اول تو یہ مسلم نہیں کہ ان سب کا مذہب یہودی کہلاتا تھا، جب کہ ان میں سے بہت سے اپنا اپنا علیحدہ دین و شریعت لے کر نہیں آئے بلکہ پہلے نبی کی دعوت کو آگے بڑھایا، دوسری بات یہ ہے کہ اوپر جو منطقی اصول بتایا گیا یہ اس وقت ہے جب کہ نئے آنے والے نبی کو پچھلی امت اور قوم بھی نبی مان لے تو مذہب تبدیل نہیں ہوا تو امت بھی تبدیل نہیں ہوئی لیکن اگر پہلی امت کے لوگ نئے آنے والے نبی اور اس کے مذہب کو نہ مانیں تو یقیناً امت تبدیل ہوجائے گی۔قادیانیوں کا مسئلہ یہی ہے کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا، اس کے ماننے والوں نے اسے نبی تسلیم کیا جبکہ پوری امت مسلمہ نے اسے قبول ہی نہیں کیا ،بلکہ رد کرکے اس کی تغلیط کی ، اس اعتبار سے قادیانی امت مسلمہ کا حصہ نہیں ،کیوں کہ وہ حضور اکرمﷺ کے ساتھ ایک نئے نبی کو مانتے ہیں اور مسلمان قادیانیوں سے علیحدہ امت اور قوم ہیں، کیوں کہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے تو مسلمان اور قادیانی مذہبی اعتبار سے علیحدہ علیحدہ قو م اور امت ہوئے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا حصہ نہیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ کو اللہ کا آخری نبی ماننے والے، قرآن کریم کو اللہ کی آخری کتاب ماننے والے اور کسی بھی نئے نبی کا انکار کرنے والے علیحدہ قوم اور امت ہیں اور مرزا کو ماننے والے علیحدہ قوم ہیں۔

اب تنازع یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کا لفظ کون استعمال کریںگے۔ سرکار دو عالمﷺ کے ماننے والے یا مرزا کو ماننے والے۔ پوری دنیا پر واضح ہے کہ قرآن کریم کو ماننے والے سرکار ختم الرسل ﷺپر ایمان لانے والے چودہ سو سال سے اپنے لیے اسلام کالفظ استعمال کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کا نام مسلمان رکھاہے۔ ان کے دین کا نام اسلام رکھا ہے۔ صرف نام ہی نہیں رکھا بلکہ اسے پسندیدہ دین قرار دیا۔ پوری دنیا کے لوگ انہی لوگوں کو مسلمان سمجھتے اور کہتے چلے آئے ہیں۔اسلام اور مسلمان کا لفظ ان کی شناخت اور پہچان ہے۔ کسی یہودی، عیسائی ، ہندو ، پارسی، بدھ مت، لبرل، سیکولر یا کسی بھی مذہب، قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں۔وہ آنحضرتﷺ کو آخری نبی اور قرآن کریم کو اللہ کی آخری کتاب ماننے والوں کو ہی مسلمان سے پکارتے ہیں اور ان کے دین کو اسلام سے تعبیر کرتے ہیں۔اب وہ لوگ جن کے وجود کو صرف سوا سو سال کے قریب ہوا ہو۔ وہ ان مسلمانوں کی شناخت چوری کریں۔ ان کے نام پر ڈاکہ ڈال کر خود پر چسپاں کریں تو کوئی قانون، کوئی عرف، کوئی معاشرہ ، کوئی اخلاق انہیں اجازت نہیں دے گا۔

امت مسلمہ کا مطالبہ یہی ہے کہ جب قادیانی ہر اعتبار سے مسلمانوں سے علیحدہ ہیں خود انہیں بھی اس کا اعتراف ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں کا نام استعمال کرنا چھوڑدیں اور اسلام و مسلمان کا نام استعمال کرکے نہ مسلمانوں کی شناخت پر ڈاکہ ڈالیں، نہ ان کے حقوق چھینیں، بلکہ جب تمہارا مذہب جدا، تمہاری ہر چیز مسلمانوں سے جدا تو اپنا نام بھی الگ رکھیں۔ حیرت ہوتی ہے اتنے واضح اور صاف معاملے کے باوجود قادیانیوں کو کوئی نہیں کہتا کہ تم اسلام کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کے مذہب و حقوق پر کیوں ڈاکہ ڈالتے ہو؟ الٹا مسلمانوں کو ہی موردالزام ٹہرایا جاتا ہے۔یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ مسلمانوں سے تو کہا جاتا ہے کہ تم مرزائیوں کو کافر کیوں کہتے ہو، ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ اربوں مسلمانوں کوتم کیوں کافر کہتے ہو، صرف کافر ہی نہیں، جہنمی، ولدالحرام اور نہ جانے کیا کیا خرافات بکتے ہو۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ قوم ہیں، ان کے نظریات بھی یہی بتا رہے ہیں۔ان کا اعتراف بھی یہی ہے ۔ اسی کے مطابق قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرکے انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جو عین انصاف ہے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے اس وقت سے کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح یہ قانون یا تو ختم ہوجائے یا اس میں اس طرح ترمیم کردی جائے کہ اس کی افادیت ختم ہوجائے۔ ۷؍ستمبر کے موقع پر پوری امت مسلمہ خصوصاً پاکستانی قوم یہ عہد کرے کہ ہم اس قانون کو تبدیل ہو نا تو دور کی بات ہے،اس میں ادنیٰ سی ترمیم بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے لیے پوری قوم کو ہمہ وقت بیدار اور چوکنا رہنا ہوگا کہ کوئی بھی چورراستے سے اس میں نقب زنی نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کی ختم نبوت کی حفاظت فرمائے اور ہمیں سرکار دو عالمﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے قبول فرمائے۔(آمین)