’کاروکاری‘ دو زندگیاں فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھ گئیں

October 20, 2019

سندھ کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے ، جس میں اس خطے کا درخشاں ماضی اورباوقار تہذیب اس کی شان و شوکت کی عکاسی کرتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے باسیوں میں دور جہالت کی کچھ قبیح رسوم صدیوں سے چلی آرہی ہیں جنہوں نے اس کے درخشاں ماضی کو دھندلا دیا ہے۔ انہی میں سے کاروکاری کی رسم ہے ۔ اس میں کسی بھی عورت یا مرد کو ناجائزتعلقات قائم کرنے کا الزام لگا کرکاری قرار دیتے ہوئے بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ’’مذکورہ مجرم یا مجرمہ ‘‘ کو جرگے کے خودساختہ فیصلے کے تحت ، قتل کے بعد بغیر تجیہز و تکفین، کسی گڑھے میں پھینک کراوپر سے مٹی ڈال کر اس کا منہ بند کردیا جاتا ہے۔

اس قسم کے واقعات زیادہ تر بارسوخ افراد سے ذاتی رنجش ، زر، زمین کے تنازعے اور جائیداد کی ملکیت یا کسی لڑکی سے پسند کی شادی نہ ہونے یا اس کی طرف سے بااثرشخص کے ناجائز خواہش پوری نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، جس میں مخالفین کو کاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں یا دورافتادہ قصبات میں شوہر اور سسرالی بھی اپنی بیوی یابہو پر اپنے کسی دشمن کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کردیتے ہیں اور سزا پانے سے بچ جاتے ہیں۔

قبائلی جرگوں کے خودساختہ قوانین کے مطابق اس طرح کے قتل کو عام قتل نہیں بلکہ غیرت یا ناموسی قتل گردانا جاتا ہے۔ یہ فرسودہ روایت صوبہ سندھ میں کارو کاری کہلاتی ہے، پنجاب میں کالا کالی، سرحد میں طورطورہ اور بلوچستان میں سیاہ کاری۔ نام کوئی بھی ہو ، قدیم روایات اور رسم ورواج طویل عرصے سے خواتین کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ۔ اس رسم کی بھینٹ چڑھنے والی زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں اور مردوںکو گلو خلاصی مل جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران کارو کاری یا غیرت کے نام پر 79 افراد قتل کیے گئے، جن میں 50 خواتین اور 29 مرد شامل ہیں۔

رواں ہفتے کاروکاری کے نام پردوخواتین سمیت تین افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ خاتون کے قتل کی ایک واردات، گائوں دودو سولنگی میں ہوئی جس میں نجف علی سولنگی نے اپنی بیوی 23 سالہ انور خاتون کو پستول سے فائر کرکے قتل کردیا اورجائے وقوعہ سےفرارہوگیا ۔ہنگورجہ پولیس نے مقتولہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال پہنچائی ۔

پولیس نے مقتولہ کےباپ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے مفرور ملزم نجف کی تلاش میں چھاپے مارے اور اسے گرفتار کرلیا ۔کچے کے علاقے حسن شہید تھانے کی حدود میں کیلوں کے باغ سے نوجوان کی لاش ملی ہے جس کو تیز دھار آلے سے ذبح کیا گیاتھا جس کی شناخت گائوں غلام النبی سولنگی کےرہائشی بشارت ولد غلام شبیر سولنگی کے نام سے ہوئی ہے۔

مقتول کے چچا محمد رمضان سولنگی نے الزام لگایاکہ اس کے بھتیجے کو نجف سولنگی اور سراج سولنگی نے کارو کاری کا الزام لگا کر قتل کیا ہے ۔واضح رہے کہ اسی روز نجف علی سولنگی اپنی بیوی انور خاتون کو قتل کرنے کے بعد فرار ہوگیا تھا۔ مقتولہ انور خاتون کا قتل بھی کاروکاری کا شاخسانہ لگتا ہے اور اس واقعے کا تعلق بشارت کے قتل کے ساتھ جڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

دوسری جانب سیٹھارجہ میں قبائلی اور برادریوں کے درمیان تصادم کے واقعات بھی وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں۔ سیٹھارجہ کے قریبی علاقے گائوں قابل موجائی میں پلاٹ کے تنازعے پر موجائی برادری کے درمیان مسلح تصادم ہوگیا ، جس میں لاٹھیوں اور کلہاڑیوں کا آزادانہ استعمال ہوا، جس کے نتیجے میں خادم حسین، اظہر علی، حاکم علی، رب نواز، توفیق، شاہنواز، الہٰی بخش، گل منیر، محمد آچر، مسمات زینب خاتون، مسمات حفیظاں، مسمات بشیراں سمیت بیس افراد شدید زخمی ہو گئے، جنہیںسیٹھارجہ پولیس نے ایس ایچ او نور احمد لغاری کے ہمراہ موقع پر پہنچ کر اسپتال منتقل کیا۔ زخمیوں میں سے نوجوان اظہر علی کو تشویش ناک حالت کے باعث کراچی کے اسپتال لے جایا گیالیکن ہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا ۔

زخمی ہونے والے گروپ کے راشد علی موجائی کی مدعیت میں اٹھائیس افرادکے خلاف مقدمہ درج کیا گیاہے۔ان میں سے چار ملزمان شکیل احمد، سفیر، ایاز، امتیازاور ممہتاب کو گرفتار کرلیا گیاجبکہ باقی افراد نےسکھر ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی ہے۔اس واقعہ کے بعد گاؤں میں امن و امان کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہے اور متحارب گروپ مورچہ بند ہوکر بیٹھے ہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ خوں ریزی ہوسکتی ہے جب کہ گاؤں میں لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں۔صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

ایک اور واقعہ میں گائوں یار محمد جسکانی میںزیتون جسکانی نامی شخص نےمبینہ طور پر اپنی 25 سالہ بیوی ، دو بچوں کی حاملہ ماں نمانی جسکانی کوفائرنگ کرکے ہلاک کردیا ۔ ملزم نے اپنی بیوی کی موت کو خودکشی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ پڑوسیوں کے مطابق زیتون جسکانی اس سے قبل بھی اپنی ایک بیوی کو قتل کرچکا ہے اور وہ عادی مجرم ہے۔اسے علاقے کے بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سےوہ جرم کرنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں جیل سے رہائی حاصل کرلیتا ہے۔

مقتولہ نمانی کے ورثاء محمد یوسف اور مظہر جسکانی کا اس قتل کے بارے میں کہنا ہے کہ ملزم زیتون نے اپنے ساتھی صوف جسکانی کے ساتھ م کر نمانی کوفائرنگ کرکے ہلاک کیا ہے۔لیکن پولیس نے صرف زیتون کو گرفتار کیاہے جب کہ اس قتل میں ملوث دوسرے ملزم صوف جسکانی کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام ہے ۔

دوسری جانب نمانی کے قتل کے ملزم کو چھڑوانے کے لیے بااثر افراد نے کوششیں شروع کردی ہیں اور لگتا یہی ہے کہ مذکورہ قاتل اس دفعہ بھی سزا سے بچ کر مستقبل میں کسی اور بے گناہ خاتون کی ہلاکت کاباعث بنے گاجب کہ مقتولہ کے ورثاء بااثر افراد کے دباؤیاچند روپے کی معمولی رقم خوں بہا کے نام پر لے کر اپنی لخت جگر کے ساتھ ہونے والی درندگی کو فراموش کردیںگے۔