شہر کے بیچوں بیچ بسائی گئی بستیاں

March 12, 2020

عاطف حسین

شہر کے بیچوں بیچ بسائی گئی بستیاںاس منظم ہجرت کے پیچھے گداگر مافیا کا ہاتھ ہے

گزشتہ دس سالوں کے دوران کراچی بھر میں ضلع تھر پارکر میں بسنے والے ایک مخصوص برادری کو منظم انداز میں لا کر فلائی اووز کے نیچے یا ایسی خالی جگہوں پر بسایا گیا ہےجو مقدمہ بازی کے باعث خالی پڑی تھیں یہ کون لوگ ہیں اور ان کو تھر پار کر سے کن مقاصد کے لئے یہاں لا کر بسایا گیا ہے؟یہ کہانی بھی ایک مافیا کے گرد گھومتی ہے۔

راتوں رات بسائی گئیں، ان بستیوں کے مکینوں کا تعلق تھرپارکر کے، بھرگڑی اور بھیل کے ہندو برادری سے ہےاور تھر پارکر میں ذات کے حساب ان کو نچلے درجے میں شمار کیا جاتا ہے۔گزشتہ دس سال کے دوران اس مخصوص برادری کو پہلےکینٹ اسٹیشن پھر گلشن اقبال اور پھر ضلع وسطی میں ناظم آباد اور ناگن چورنگی کے اطراف فلائی اوورزاور مقدمہ بازی کا شکار قیمتی پلاٹوں پر بسایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شہر میں تجاوزات کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر آپریشن جاری تھا تو اس دوران بھی لیاقت آباد میں راتوں رات لیاری ایکپریس وے کےپل کے نیچے اسی برادری کی بستی بسادی گئی۔اچانک بسائی گئی ان بستیوں کو ہٹانے کے لئے ناظم آباد میں دو سال پہلے کارروائی کی گئی لیکن مزاحمت یا دباؤ کے باعث کاروائی ادھوری چھوڑ دی گئی۔

تحقیقات کے مطابق اس منظم ہجرت کے پیچھے گداگر مافیا کا ہاتھ ہے جو ان برادری کے خواتین اور بچوں سے پر ہجوم سگنلز اور بازاروں میں بھیک منگواتی ہے۔

اس برادری کے مرد عموما کام نہیں کرتے لیکن کچھ علاقوں میں یہ لوگ سیزن کے حساب سےپھول ، غبارے ، سبزی اور پھل بیچتے ہیں ، اچانک بسائی گئی ان بستیوں میں محدود پیمانے پر منشیات کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ان لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پولیس ، کے ایم سی ، کے ڈی اے اور کراچی الیکٹرک کےحکام تک پہنچتا ہے۔جن کے بدلے ان بستیوں میں بجلی اور ٹی وی کیبل کی سروس فراہم کی جاتی ہے بلکہ ان بستیوںمیں موجود جرائم پیشہ افراد کو ہر قسم کا تحفظ دیا جاتا ہے۔

شہر کے بیچوں بیچ بسائی گئی ان کچی بستیوں میں آتشزدگی کےمتعدد بار واقعات ہو چکے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر شہر کی شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت نہ تو ان کو ان مقامات سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور نہ ہی ان افراد کو بسانےکا کوئی مستقل حل تلاش کرتی ہے۔

لیاقت آباد میں ہونے والی آتشزدگی کے واقعےکے بعد بے گھر افراد کو امداد میں خیمے اور کھاناتو فراہم کر دیا گیا لیکن ان افراد کو گداگر مافیا سے بچانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کی خاموشی بھی حیرت انگیز ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ لوگ کچھ عرصے بعد مالی طور پر اپنے پیروںپر کھڑے ہو کر ایک بار پھر انہی سرگرمیوں میں دوبارہ ملوث ہو جائیں گے اور ہم ایک اور حادثے تک ان کو بھول جائیں گے۔