جسم پر ارتعاش کے ذریعے الفاظ کی شناخت کرنے کا کامیاب تجربہ

March 16, 2020

ایمان فاطمہ

اس دور میں جہاں سائنس وٹیکنالوجی کی دنیا میں نت نئی ایجادات ہورہی وہیں پر سوشل میڈ یا پر بھی اہم پیش رفت سامنے آرہی ہیں ۔حال ہی میں سوشل نیٹ ورک کے ایک تحقیق کار نے وئیر ایبل پروٹوٹائپ کی مدد سے لوگوں کو اپنے بازئووں پر 100 الفاظ محسوس کرنا سکھایا ہے ۔یہ پروٹوٹائپ آلہ آوازوں کو جلد پر محسوس ہونے والی مخصوص وائبر یشنزکی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ یہ آلہ فیس بک کے تحقیق کار نے تیار کیا ہے ،اس میں ’’ایکچویٹرز‘‘ ( actuators) نصب کیے ہیں جو محرک کرنے پر پہننے والے کے بازو پر مخصوص آوازوں کے مطابق پیٹرنز میں وائبر یشنز پیدا کرتے ہیں۔فی الحال تجربات کے طور پر تین لوگوں کو اس کو محسوس کرنے کی تربیت دی گئی ہے ۔پروجیکٹ کےسر براہ کے مطابق ،ڈیڑھ گھنٹے کی تربیت فراہم کرنے کے بعد مطالعے کے شرکت کنندن گان 100 الفاظ پہچاننے لگےتھے ۔اس پروجیکٹ کو مونٹریال میں منعقد ہونے والی ہیومن کمپیوٹر انٹر یکشن کے متعلق سالانہ CHIکانفرنس میںپیش کیا جائے گا۔

ما ہرین کے مطابق اس پروجیکٹ کو بنانے کا خیال بریل اور ٹاڈوما (جو نابینا افراد کے لیے مواصلت کا ایک طر یقہ کار ہے ،جس میں بولنےوالے کے ہونٹ ،چہرے اور حلق کو محسوس کرکے الفاظ کا اندازہ لگایا جاتا ہے )کو دیکھ کر آیا تھا ۔اُمید ہے کہ مستقبل میں اس کے ذریعے ایسی اسمارٹ واچ ایجاد ہوسکتی ہےجو بجنے کے بجائے وائبریشن کے ذریعے مخصوص پیغامات پہنچائے گی ،تا کہ آپ کو اپنی موجودہ سر گرمیوں میں مداخلت کے بغیر ہی خبریں موصول ہوتی رہیں۔

اس سے بینائی اورقوت سماعت سے محروم افراد کو بھی زیادہ آسانی سے معلومات فراہم کی جاسکتی ہے ۔اس پر وجیکٹ پر گرشتہ چھ ماہ سے کام ہورہا تھا ۔اُس وقت سے اب تک اس ٹیکنالوجی میں کافی بہتری آئی ہے ۔پروجیکٹ کے سر براہ کا کہنا ہے کہ 100 منٹ تک تربیت حاصل کرنے کے بعد لوگ 90 فی صد درستی کے ساتھ 100 الفاظ سیکھنے میں کام یاب ہوئے تھے ۔اور مزید 100 منٹ کی تربیت کے بعد کچھ افراد نے 500 الفاظ سیکھ لیے ۔اس کے پروٹوٹائپ کو ایک ایسے کمپیوٹر کے ساتھ متصل کیا گیا ہے ، جس کے ذریعے پروٹوٹائپ پہننے والے اشخاص مختلف صوتیے اور نمونےکے طور پر پیش کیے جانے والے الفاظ کا انتخاب کرسکتا ہے ،جنہیں بازو پر وائبریشنز کی شکل میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

مختلف آوازوں کی بازو کے اوپری اور نچلے حصے پر موجود مختلف ایکچویٹرز سے موصول ہونے والے احساسات کے ذریعے نمائندگی کی گئی ہے۔ مطالعے کے شرکت کنندگان کے کئی الفاظ پہچاننے کے بعد تحقیق کار نے ان کا امتحان لیا۔ کمپیوٹرکی ا سکرین پر کچھ سوالات پیش کیے گئے، جس کا جواب دینے کے لیے شرکت کنندگان کو وائبریشنز کا استعمال کرنا تھا۔ایم آئی ٹی کی سینیئر ریسرچ سائنسدان اور کیوٹینیس سینسری لیب (Cutaneous Sensory Lab) کی صدر محقق لنیٹ جونس (Lynette Jones) کے خیال میں فیس بک کی تحقیق کافی اُمیدافزا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتی ہیں کہ کانوں یا آنکھوں کے مقابلے میں انسانی جلد میں معلومات پراسیس کرنے کی صلاحیت زیادہ اچھی نہیں ہے۔

ان کے مطابق، یہ اس قسم کا طریقہ ثابت ہوگا ،جسے آپ صرف حسب ضرورت استعمال کرنا چاہیں گے۔وہ کہتی ہيں “لوگوں کو ہر وقت نوٹیفیکشنز حاصل کرنا اچھا نہیں لگتا ہے۔”اس کے علاوہ، اگر اس طریقہ کار کو موثر ثابت ہونا ہے تو اس کی رفتار میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ پروجیکٹ کے سربراہ کا کہنا ہےکہ اس ویئرایبل آلے کو چھوٹا کرنے کے علاوہ، ریسرچرز بازو کو الفاظ کی ترسیل کی رفتار میں بھی اضافہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس وقت یہ رفتار طرف 10 الفاظ فی منٹ ہے، جو ایک مختصر ٹیکسٹ پیغام کے لیے تو صحیح ہے، لیکن مزيد تفصیلی پیغام کے لیے بے کار ہے۔