وہ دن کیا ہوئے....

April 25, 2020

محمد فاروق دانش

دوستو ! جب ہم اپنا ذہن ماضی کے دریچوں میں کھولتے ہیں تو عجیب ہی منظر پاتے ہیں ۔پرانے دور کی باتیں خوش رنگ تتلیوں کی مانند… یادوں کے مکہتے ہوئے باغات میں اِدھر سے اُدھر اُڑتی دکھائی دیتی ہیں …گوکہ بعض شعراء کے نزدیک یادِ ماضی عذاب ہوتا ہے لیکن یہ دور ہمارے لیے آج بھی فرحت بخش اور حوصلے و امید کی نوید ہے۔پرانی یادیں …ذہن میں ایک خوش کن ہل چل پیدا کر دیتی ہیں اور انسان کے اندر کا بچہ پھر سے توانا ہوجاتا ہے ۔واہ ! وہ بھی کیا وقت ہوا کرتا تھا ۔ وہ سحر انگیز لمحات ،دل فریب اور پر راحت فضائوں میں جھلملاتی رنگارنگ سادہ لیکن خوب صورت تقاریب ، خوش گپیوں کے قہقوں سے بھری ننھی منّی شرارتیں ،بڑوں کے احترام اور ادب میں پروان چڑھتا عزم و حوصلہ ،دن ہو یا رات …ایک سحر انگیزی تھی جس نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ہر سمت سچی خوشیوں کے موتی بکھرے ہوتے تھے ۔ محبت کے نکھار اور خوش بو نے سب ہی کو معطر کر رکھا تھا، وہ دن جن کی مثالیں دی جاتی ہیں ،ان کی پہچان ، ان کی اپنی انفرادیت تھی ۔

کو ئی بیس تیس برس قبل کے صفحات زیست کو پلٹتے ہیں اُس پر سحر دور کے نوجوان سحر انگیز صلاحیتوں اور عادات کے حامل ہوتے تھے ۔لڑکے ہوں یا لڑکیاں ، اپنی مثال آپ بننے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے ۔فضول وقت ضایع کرنا…بے کار کے کاموں میں جُتنا یاخود کو مخصوص عادتوں کا غلام بنا لینا ،ماضی میں نوجوانوں کے نزدیک شجر ممنوعہ ہوتا تھا ۔یعنی خوبیوں او ر راحتوں کے دل دادہ نوجوان ، صبح تڑکے اٹھ کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے تھے۔ کوئی اسکول تو کوئی کالج جا رہا ہے ، جو ایوننگ کالج میں ہے وہ نماز کے بعد شام کے ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہے ، ملازمت پر لگا نوجوان اپنی راہ گام زن ہے۔ غرض ہر کوئی اپنے کار منصبی کے لیے ہمہ تن مصروف ہے۔جب کہ ہم آج کے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو وہ سماجی حیثیت میں زیادہ تر لا یعنی مشغولیات کا شکارنظر آتا ہے ۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ پہلے نوجوان کھیل کود کے عادی نہیں تھے اور یہ بھی نہیں کہ وہ کسی دوسرے سے حسد اور بغض میں اپنی توانائیاں صرف کر دیتے تھے۔یہ وہ دور تھا جب دولت کا لالچ تھانہ خود نمائی کی غرض ، دوسروں کی عیب جوئی، نہ بے مقصد کام،کچھ ایسا نہ تھا جو فضا کو مکدر کرتا ،کیا حسین اور سحر انگیز شامیں ہوتی تھی ،کیا خوب ان کی پذیرائی کرنے والے لوگ تھے ،کیسے چلن کی یادیں ہوتی تھیں ،دل کی بستیوں میں خوشیوں کی آبادکاری تھی، ہر شے کھری ،سچی اور نکھار والی …کھیل کود کا وقت معین ،کرکٹ ،ہاکی،بیڈمنٹن کے دل دادہ نو جوانوں کا جوش و جذبہ قابل دید تھا ۔ کالج سے آئے،کھانا کھایا،کچھ دیر آرام کیا اور پھر سستی اتارنے کے لیے میدانوں کا رخ کرتے ۔پھر کیا ،خوب خوب چھکے لگے اور خوب ہی چوکے ، دل پسند کھیلوں میں ایسا من لگتا کہ دیکھنے والے بھی جھوم جھوم اٹھتے تھے ۔

واہ رے واہ !کیسا کھیل او ر کیسے ہیں کھلاڑی ،جو جیت گیا وہ بھی خوش اور جو ہار گیا وہ بھی ، کوئی رنجش یا جھگڑا ،نہ کوئی حسد یا کینہ ،کھیل،کھیل ہی رہتا۔جن کا دل میدان میں نہ لگتا تو کیرم کی طرف لوٹ آتے اور کچھ لوڈو ،کچھ چوکنڈی کی بازی سجا لیتے ۔ لڑ کیاں تھیں کہ چھپن چھپائی ، پہل دوج ،جھولوں کی سیر یا کوڑا جمال شاہی کھیل کر لطف اندوز ہوتیں، آہا! کھیل ہی کھیل میں پڑھائی کا وقت ہو جاتا اور لگتی دوڑ کتابوں کی طرف ۔ٹیوشن کے لیے بھاگو یا پھر ہوم ورک ،استاد جی آگئے تو بس چوکڑی ہی بھول گئے ۔خوب دل لگا کر پڑھا ،جو سوال نہیں آتا ، استاد سے پوچھااور حاضر دماغی سے ذہن میں اچھی طرح جاگزیں کیا ،کتابوں اور کاپیوں کی مہک ،نان تکوں ، قورمہ بریانی اورشاہی ٹکڑوں سے زیادہ بھلی لگتی تھی۔پڑھائی سے فارغ ہوئے توکچھ دیر ٹی وی دیکھا ۔سکس ملین ڈالر مین، اسکائی لیب ،اسٹار ٹریک کے فن کاروں کے ساتھ خود بھی خلائوں کی سیر کی۔ففٹی ففٹی کے قہقہے لگائے ،تنہائیاں کے قباچہ کو دیکھ کر لوٹ پوٹ ہوئے اور اس کی نقل اتاری ۔گھر والوں کا دل لبھایا اور بستر کی راہ لی۔ اب وہ ہوتے اور ہوتی خواب ِخرگوش کی تیرائی ۔

سیدھے سادے لوگ ،سیدھی سادی باتیں ، سوچ اور رویوں میں بھلائی اور نیکی کی مٹھاس ، ایسی کون سی بات تھی جو اس دور کے نوجوانوں کو منفرد نہ بناتی ، لمبی چوڑی دوستیاں ،نہ گھر سے زیادہ دور جانے کی عادت ، راتیں جاگ کر گزارنے کا خبط،نہ ہی تماشے دکھا کر تماشابن جانے کا شوق ،مختصر سی سر گرمیوں نے ان کی دنیا کو بھی مختصر کر رکھا تھا ، کتابیں اپنی خریدیں ۔ دس روپے سے سو روپے میں بہترین کتابیں میسر آجاتیں، اپنی نہ خرید سکے تو اسکول و کالج کی لائیبریریاں حاضرہوتیں، اخبار پڑھنے کو دل چاہا تو یونین کونسل کی لائبریریاں ہر محلے میں ، اردو ، سندھی اور انگریزی اخبارات میں بچوں کے صفحات پڑھتے ، معلومات نوٹ کرتے ، اپنی کہانیاں بھیجتے ، منہگی کتابیں دیکھنا ہوئیں تو نیشنل سینٹر کی خدمات حاصل کرلیں۔ کیا خاموش ماحول تھا ، کیا سحر انگیزی تھی ، پڑھنے میں لطف آتا ، جب سند باد اور حاتم طائی کی کہانیاں پڑھتے تو اسی دنیا میں پہنچ جاتے اور دل کرتا کہ کبھی واپس نہ آئیں، ہفتے او ر پندرہ روز میں منعقد ہونے والی ادبی سر گرمیوں کا غیر معمولی اہتمام ، چند دوست ایک دوسرے کی پذیرائی اور علمی و ادبی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے بڑے تپاک سے مل بیٹھتے ۔

قلم کی دوستی نے ہر چیز کو بے وقعت کردیا تھا اور کسی کی عزت تھی تو قلم ہی کی بہ دولت ،علم دوستی نے نوجوانوں کی مصروفیات کو چا ر چاند لگا دیے تھے ، جب کوئی ملتا تو افسانے اور شاعری پر بات کرتا ،بڑے بڑے افسانہ نگاروں کے نام ذہنوں میں اور تصاویر در و ذہن کی دیوار پر سجنے لگیں، ہوائیں ٹھنڈی میٹھی،ادائیں او ر مزاج بھی ایسے ہی ،ہر دن نیا پن لیے ہوتا تھا ،نئی امید اور نئی لگن کا جذبہ ،جسم میں چستی اور ارادوں میں حرارت بھر دیتا تھا ۔ بس ایک عالم تھا مزے کا۔

اس کے برخلاف آج ہم دیکھیں تو نوجوانوں کا حال ہی عجیب ہے ۔ پہلے جیسی چستی رہی نہ مزاجوں میں خوش دلی ، کام کریں تو سستی سے اور بات کریں تو سرد مزاجی سے ۔ بے زار بے زار،تھکے تھکے ۔ پڑھنے لکھنے کا جنون تو ہے لیکن کھیل کود تفریح مفقود ،جو پڑھ رہے ہیں وہ پڑھ ہی رہے ہیں اور جو کھیل کود میں مصروف ہیں ، انھیں دین کی خبر ہے نہ دنیا کا ہوش ۔ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رات کو جلد سونا اور دن میں جلد اٹھنا کسرِ شان سمجھتا ہے۔ یہ نوجوان اب گیارہ بجے سو کر اٹھتے ہیں ، فخریہ بتاتے ہیں کہ بارہ بجے نہا کر نکلا ،ایک بجے ناشتا کیا۔ اب ان کے پاس وقت کیا بچا۔اب جو تھوڑا باہر نکلے تو شام یوں ہی ہو گئی۔ جو باہر نہیں جاتے وہ پھر موبائل یا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتے ہیں ، ایس ایم ایس سروس یا پھر کال پیکج…کہیںون ویلنگ کی جگت تو کہیںگٹکوںکی بھگت ،موبائل فون کی پریاںتو کہیں انٹرنیٹ کی گھڑیاں ،کہیں گیم ہیں تو کہیں مقابلہ خوش نمائی ہے،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا زعم ، علمی محافل کم اور خود نمائی کی نشستیں از حد،ہوائی قلعے توبہت بنائے جاتے ہیں لیکن ان کا حاصل کیا ہوتا ہے۔ایسے مایوس نوجونواں کے پاس لگتا ہے کہ مثالی بننے کے لیے کچھ بھی نہیں،نئے دور کی الیکٹرانک اشیا نے انسان کو سماج سے جوڑنے کے بہ جائے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ ایک دوسرے کے سامنے سے گزرتے ہیں تو ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دینے میں سوچتے ہیں کہ وہ پہل کرے لیکن اگر موبائل کا ان باکس دیکھیں تو ڈھیروں دعائیں موجود ہوتی ہیں۔ یعنی یہ وقت گزاری اور سماج سے پہلو تہی کی ایک عام سی مثال ہے۔بے ربط سر گرمیوں اور بے مقصد مشاغل نے نوجوانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔

آج کا نوجوان اگر اپنی نامرادی کو مراد سمجھنا چھوڑ دے اور اپنے آنے والے کل کے تعاقب میں نکل پڑے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ ہر سحر سے مقوی سحر جانتا ہے ،وہ ہرساعت اور ہرراحت کو لوٹا کر دنیا کی رعنائیوں کو مثالی بنانے کی پوری قدرت رکھتا ہے ،اقبال کا خواب یہی رہا کہ نوجوانوں میں عقابی روح کو بے دار کیا جائے۔ وہ تو محبت ہی ان جوانوں سے کرتے ہیں جو ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، پژمردگی اور مایوسی نوجوان کا مستقبل نہیں بنا سکتی ، بے مقصد مشغولیات اس کی زندگی میں تبدیلیاں نہیں لا سکتے ، منزل پانے کے لیے نوجوانوں کو سب سے پہلے مایوسیوں کے دروازے بند کرنا ہوںگے، اس کے بعد انھیں قلم کی بات سننا اور کتاب سے دوستی کرنا ہوگی ،جسمانی صلاحیتوں کو بہ روئے کار لانے کے لیے کھیل کے میدانوں کو رخ کرنا ہوگا اور اس بات کو تسلیم کرلینا ہوگا کہ وہ ہی تو ہے گوہر نایاب ،اسی کے دم سے ہے سب کچھ ،گوو ہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔

یہ بات افسوس ناک ہے کہ آج ماضی کی خوبیاں خال خال دکھائی دیتی ہیں ،جذبوں کا بے رنگ ہوجانا ،خدمات کا تعین نہ کیا جانا ، بے وقعت کاموں میں وقت کا ضیاں ،یہ بھی ایک المیہ ہے ،نوجوانوں کے درد کو سمجھنے والوں کو اس کے لیے علاج ڈھونڈنا ہوگا ۔یہ آج کے نوجوانوں سے ہم دردی بھی ہوگی اور نوجوانوں کی امیدوں کو پروان چڑھانے کی ایک در د مندانہ سعی بھی ۔

ہو گر اطوا ر میں کرواہٹ پیدا ۔۔۔پھر کسی خوشبو کے چمن کی آرزو کرلے