ہیپاٹائٹس بی، سی کورونا سے زیادہ خطرناک، پاکستان میں روزانہ 300 سے زائد اموات کا سبب، ماہرین

July 25, 2020

ہیپاٹائٹس بی اور سی کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک وائرس ہیں جن کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں سے روزانہ صرف پاکستان میں 300 سے زائد اموات ہورہی ہیں، پاکستان میں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے، بدقسمتی سے لاکھوں لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہو چکے ہیں اور نادانستگی میں یہ وائرس دوسروں کو منتقل کر رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ملک کے معروف ماہرین امراض پیٹ و جگر نے ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے 2020 کی مناسبت سے ہفتے کے روز ہونے والے آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شناختی کارڈ بنوانے اور شادی کرنے سے پہلے ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے تاکہ ملک میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی صحیح تعداد کا تعین اور ان کا علاج کیا جا سکے۔

آن لائن سیمینار کا انعقاد پاکستان جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی (PGLDS) نے کیا تھا اور اس آن لائن سیمینار سے پاکستان بھر کے معروف ماہرین پیٹ و جگر جن میں پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کامانی، ڈاکٹر سجاد جمیل، پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر شاہد احمد، جناح اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر نازش بٹ، ڈاؤ یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار ڈاکٹر امان اللّٰہ عباسی، ڈاکٹر حفیظ اللّٰہ شیخ، لاہور سے ڈاکٹر نعمان ذاکر اور کبیر میڈیکل کالج پشاور کے پروفیسر جبران عمر ایوب خان نے بھی خطاب کیا۔

اس موقع پر بین الاقوامی پوسٹر کمپیٹیشن کے شرکاء کے ناموں کا اعلان بھی کیا گیا اور ہیپاٹائٹس کے موضوع پر اسکول کے طلبہ کی جانب سے تحقیقاتی پوسٹر بنانے پر چار طلبہ کو سرٹیفیکیٹ اور کیش انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔

پی جی ایل ڈی ایس کے زیر اہتمام ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت نیشنل اسپتال اور آغا خان اسپتال کی ماہر امراض پیٹ و جگر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی نے کہا کہ ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے 2020 کا موضوع "گمشدہ ملین کی تلاش" ہے، جس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 290 ملین یا 29 کروڑ افراد وائرل ہیپاٹائٹس سے متاثر ہیں اور اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں بغیر تشخیص کے لاکھوں افراد اس موذی مرض کا شکار ہیں اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے اور وہ بغیر تشخیص کے تکلیف دہ زندگی گزارتے ہوئے انتقال کر جائیں گے۔ ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر ہماری پاکستانیحکام سے اپیل ہے کہ وہ ہیپاٹائٹس کا شکار لاکھوں ایسے افراد جنہیں اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہے، ان کی اسکریننگ اور بیماری کی تشخیص کے لیے عملی اقدامات کریں اور شعور اجاگر کریں۔کوروناوائرس یا کسی اور متعدی بیماری کے مقابلے میں یہ زیادہ مہلک اور تکلیف دہ مرض ہے جس کا علاج بھی مہنگا ہے۔

پی جی ایل ڈی ایس کے صدر ڈاکٹر سجاد جمیل نے پاکستان میں وائرل ہیپاٹائٹس کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر باہمی تعاون سے کوششیں شروع کی جائیں اور لوگوں کو اس بیماری کی روک تھام اور بچاؤ کے اقدامات سے آگاہ کیا جائے تو ہیپاٹائٹس کا خاتمہ یا کنٹرول ممکن ہے اس بیماری سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے تاکہ وہ خود اور اپنے اہلخانہ کو اس مہلک بیماری سے بچا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے علاوہ بھی پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مرض کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ان وائرسز سے 15 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اپنی بیماری سے لاعلم ہیں۔ ان لوگوں میں زیادہ تر افراد کو اس وقت اپنے مرض کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

لیاقت نیشنل اسپتال (ایل این ایچ) سے وابستہ ڈاکٹر سجاد جمیل نے کہا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لئے پورے پاکستانی معاشرے کی اسکریننگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کی ویکسین لگوائیں، یہ ویکسین حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کا ایک حصہ ہے، جبکہ حکام پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا افراد کی تلاش کے لئے اسکریننگ مہم چلائیں، تاکہ ان کا علاج کیا جاسکے اور لوگوں کو اس متعدی بیماری سے بچایا جاسکے۔

پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلیٰ اور دارالصحت اسپتال کراچی سے وابستہ پیٹ اور جگر کی بیماری کے ماہر ڈاکٹر شاہد احمد نے کہا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی انفیکشن بنیادی طور پر خون کے ذریعے پھیلتے ہیں اور یہ جگر کے سکڑنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس ڈے کے عالمی دن پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر پاکستانی کو ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لئے اسکریننگ کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کیا جاسکے۔ ہیپاٹائٹس، جگر کے ہیپاٹیسولر کارسنومایا کینسر کا باعث بھی بنتا ہے، جو ایک سنگین بیماری ہے، جگر کی پیوند کاری ہی اس کا علاج ہے۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر (جے پی ایم سی) سے وابستہ نامور ہیپاٹولوجسٹ ڈاکٹر نازش بٹ نے کہا کہ چونکہ ہیپاٹائٹس سے متاثرہ زیادہ تر افراد اپنی بیماری سے لاعلم ہیں اس لئے انہیں بار بار اسپتال میں داخلہ، مہنگی دوائیں اور جگر کی پیوندکاری کی ضرورت پڑسکتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ اور صحت کے نظام پر بھی بہت بڑا مالی بوجھ پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کا شکار اکثر افراد 31 سال کے اندر ہی انتقال کر جاتے ہیں کیونکہ ان کی بیماری کی تشخیص نہیں ہو پاتی اور اس کے نتیجے میں علاج ممکن نہیں ہو پاتاہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (DUHS) کے سابق رجسٹرار پروفیسر امان اللّٰہ عباسی، DUHS سے ڈاکٹر حفیظ اللہ شیخ، لاہور سے ڈاکٹر نعمان ذاکر اور پشاور کے کبیر میڈیکل کالج سے ڈاکٹر جبران اور عمر ایوب خان سمیت دیگر ماہرین صحت نے بھی خطاب کیا۔