اپنے منہ میاں مٹھو

November 22, 2020

اطہر اقبال

”سنو دوستو! میں تم سب سے اچھی کرکٹ کھیلتا ہوں لہذا ٹیم کا کپتان بھی مجھے ہی بنایا جائے۔“ عامر ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا اپنی کرکٹ ٹیم کے ساتھیوں کو مستقل طور پراس بات کے لئے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ سب سے اچھی کرکٹ کھیلتا ہے اور ٹیم کی کپتانی اس کا حق ہےلہذا اسے ٹیم کی قیادت سونپی جائے۔ لیکن اس کے دوست اس کی بات کو تسلیم کرنے کور تیار نہیں تھے۔

عامر بھی ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ”میں اچھی کرکٹ کھیلتا ہوں‘‘۔آخر اس کے ایک دوست نے بار بار اصرار سےمجبور ہوکر اپنے ساتھیوں کو قائل کرتے ہوئے کہا کہ ”بھئی جب عامر اتنی ضد کر رہا ہے کہ وہ اچھی کرکٹ کھیلتا ہے تو اسےایک موقع دے کر دیکھ لیتے ہیں۔”ٹھیک ہےعامر کو کپتان بنادیتے ہیں۔“سب دوستوں نے ایک ساتھ شور مچاتے ہوئے کہا اور یوں عامر اپنی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن گیا۔

اگلے دن ہی دوسرے محلے کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ عامر کی ٹیم کا میچ طے ہوگیا۔عامر ٹاس کرنے گیا توٹاس ہار گیالہذا دوسری ٹیم نے پہلے بیٹنگ کی عامر کے سوا اس کے تمام دوستوں نے اچھی بالنگ کی جبکہ اس نےبدترین بالنگ کراتے ہوئے بغیر کوئی وکٹ لیے چھ اورز میں 52 رنز دئے۔عامر کی ٹیم جب بیٹنگ کرنے آئی تو عامر نے اوپنر کے طور پر کھیلتے ہوئے صرف دو رنز بنائے اور بولڈ ہو گیا۔

اس طرح عامر کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔عامر منہ لٹکائے اپنی ٹیم کے ساتھ واپس گھر جارہا تھا کہ اس نے اپنے کسی دوست کی آواز سنی جو دوسرے سے کہہ رہاتھا”عامر اپنے کھیل کی کس قدر تعریف کررہا تھا اور جب نتیجہ آیا تو صفر“۔دوسرے دوست نے کہا”واقعی بے چارہ اپنے منہ میاں مٹھُو بنا پھرتا تھا اب شرمندگی کی وجہ سے منہ چھپائے پھرا کرے گا۔“